Maktaba Wahhabi

480 - 645
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْنَا احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ ﴾ [ہود۳۰] ’’ہم نے کہا کہ کشتی میں ہر جاندارمیں سے دو(جانور، ایک نر اور ایک مادہ)سوار کرلے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی؛ اور سب ایمان والوں کو بھی ۔‘‘ یعنی ان کو اپنے ساتھ سوار کر جو ایمان لائے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اہل خانہ کو سوار کرنے کا حکم نہیں دیاتھا۔ بلکہ ان لوگوں کو اس حکم میں سے مستثنی قرار دیا تھا جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا[یعنی جو ایمان نہیں لائے تھے ‘ اور ان کے غرق ہونے کا فیصلہ ہوچکا تھا] اور آپ کا بیٹا بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا تھا۔نوح علیہ السلام کو اس بات کا علم نہیں تھا ۔ اسی لیے آپ نے یہ کہا : ﴿ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ﴾ [ہود۳۵] ’’اے میرے رب !بیشک میرا بیٹا میرے اہل خانہ میں سے تھا ۔‘‘ آپ کا یہ خیال تھا کہ شاید بیٹا ان لوگوں میں سے ہوگا جن کی نجات کاوعدہ کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ : ’’ آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں ‘‘ اس کی تفسیر یہ ہے کہ : ’’ آپ کے ان اہل خانہ میں سے نہیں جن کو بچانے کا آپ کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ۔‘‘ اگرچہ وہ نسب کے اعتبار سے آپ کے اہل میں سے ہی تھا؛ مگر دینی اعتبار سے ان میں سے نہیں تھا۔ کفر کی وجہ سے مؤمنین او رکفار کے درمیان موالات ختم ہوجاتی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں : ابو لہب آل محمد اور اہل بیت میں سے نہیں ہے۔اگر چہ وہ نسب کے اعتبار سے آپ کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے تھا۔ پس جب ہم درود پڑھتے ہیں : ’’اللہم صل علی محمد و علی آل محمد۔‘‘ ’’اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج ‘‘ تو ابو لہب اس میں داخل نہیں ہوتا ۔ نوح علیہ السلام کی بیوی کی ان کے ساتھ خیانت دین میں تھی۔ اس لیے کہ آپ کی بیوی بھی آپ کو پاگل کہتی تھی ۔ایسے ہی لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت بھی ان کے دین میں خیانت تھی۔اس نے آپ کے مہمانوں کے بارے میں اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کیا تھااورقوم کے لوگ لونڈے باز تھے۔ وہ عورتوں کے ساتھ زنا کی بیماری میں گرفتار نہیں تھے جو کہا جائے کہ اس نے کوئی فحاشی کی ہوگی۔ بلکہ وہ گناہ کے کاموں میں ان کی مدد کرتی تھی؛ اور ان کے ان برے اعمال پر راضی رہتی تھی۔ رافضیوں کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے انساب کی آباء و ابناء کے لحاظ سے تعظیم کرتے ہیں اور ان کی ازواج پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں ۔یہ سب خواہشات نفس کی پیروی اور عصبیت کی وجہ سے ہے ۔ اس طرح وہ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی تعظیم کی راہ نکالنا چاہتے ہیں ؛ اور اس کے ساتھ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ام المؤمنین ۔ پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں ۔ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں ۔: ابراہیم علیہ السلام کا والد آزر مؤمن تھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین بھی اہل ایمان تھے۔تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نبی کا والد کافر تھا ؛ اگر باپ کافر ہوگا تو پھر بیٹے کا کافر ہونا بھی ممکن ہے ۔ توخالی نسب سے توکوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس سے ثابت
Flag Counter