Maktaba Wahhabi

459 - 645
۱۔ ’’مدینہ طیبہ گندی اور خبیث چیزوں کو دور کرتا ہے اور پاک و ناپاک کو چھانٹ دیتا ہے۔‘‘[1] ۲۔ ’’جو شخص بے اعتنائی سے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اﷲتعالیٰ اس کے عوض اس سے بہتر آدمی کو مدینہ میں آباد ہونے کی سعادت عطاکرتے ہیں ۔‘‘[2] موطأامام مالک اور صحیحین حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بیشک مدینہ پاکیزہ ہے۔یہ گندے لوگوں کو ایسے دور کرتا ہے جیسے آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے ۔‘‘[3] وہ کہے: بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے خروج کیا ‘ اورسابقہ خلفاء راشدین کی طرح مدینہ میں مقیم نہ رہے۔اسی وجہ سے آپ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا۔ [توشیعہ کا جواب ہوگاکہ ] : حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے۔اگر کوئی علی رضی اللہ عنہ سے کم مرتبہ کا بھی ہوتو مجتہد ہونے کی بناپر وعید اسے لاحق نہیں ہوسکتی۔ تو علی رضی اللہ عنہ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ وعید ان پر صادق نہ آئے۔ پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خروج کا بھی یہی جواب ہے کہ یہ مبنی بر اجتہاد تھا اور اجتہادی غلطی ازروئے کتاب وسنت معاف ہے۔ [چوتھا اعتراض]: شیعہ مضمون نگار کا یہ کہنا کہ ’’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے نکلی تھیں حالانکہ آپ بے قصور تھے۔‘‘ [جواب] : یہ سیدہ رضی اللہ عنہا پر عظیم افتراء ہے۔ آپ جنگ کی نیت سے نہیں نکلی تھیں ‘ اور نہ ہی حضرات طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کے خواہاں تھے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دونوں گروہ لڑنے کے لیے نکلے تھے تو یہ وہی قتال تھا جس کا ذکر مذکورہ ذیل آیت میں کیا گیا ہے اور اس خطا کو معاف کردیا گیا ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ o اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُم﴾ (الحجرات:۹۔۱۰) ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے
Flag Counter