Maktaba Wahhabi

458 - 645
’’ ایمان والو! اپنا مال آپس میں ناروا طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ (النساء: ۲۹) ’’آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔‘‘اس آیت میں مؤمنین کوباہم جنگ و قتال کرنے سے روکاگیا ہے۔ اورجیسا کہ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ (الحجرات:۱۱) ’’ایک دوسرے کو طعن نہ دو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے: ﴿لَوْ لَا إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا﴾ (النور:۱۲) ’’ جب تم نے یہ (واقعہ) سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے متعلق کیوں نہ نیک گمان کیا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ میں اور اس شہر میں ۔‘‘[1] آپ ارشاد فرماتے ہیں :’’ جب قاتل و مقتول تلواریں لے کر لڑنے لگیں تو وہ دونوں جہنمی ہیں ۔‘‘ دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ! قاتل تو جہنمی ہوا مقتول کیوں کہ دوزخ میں جائے گا؟ فرمایا :’’وہ بھی تواپنے حریف کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘[2] ان آیا ت واحادیث کی روشنی میں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تلواروں سے مسلمانوں کا استقبال کیا‘ اور ان کے خون کو مباح قرار دیا‘پس آپ اس فعل پر بیان شدہ وعید کے مصداق ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تاویل کرنے والا مجتہد اس وعید کا مصداق نہیں ٹھہرے گا؛ اگرچہ اس سے غلطی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اﷲتعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘[اللہ فرماتے ہیں ]میں نے ایساکردیا۔ اﷲتعالیٰ نے مومنین کے نسیان و خطاء کو معاف کردیا ہے، خطا کار مجتہد کی خطا بھی معاف ہے۔ جب مومنین سے برسرپیکار ہونے کے بارے میں ان کی خطا معاف ہے تو اجتہاد کی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مدینہ سے خروج بالاولیٰ مغفرت کا مستحق ہوگا۔ اگرکوئی معترض بذیل احادیث کو پیش کر ے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter