Maktaba Wahhabi

434 - 645
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء کا بھی یہی طریق کار رہا ۔جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام اور دوسرے علاقوں کی طرف لشکر روانہ کیے تو آپ نے لوگوں کو عمومی ترغیب دی۔ جب اتنے لوگ تیار ہوکر نکل پڑتے جن سے مقصود حاصل ہو تو لشکر کو روانہ کردیتے ۔ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مؤتہ روانہ فرمایا؛ تو فرمایا: ’’تمہارا امیر زید ہوگا؛ اگر وہ قتل ہوگیا تو جعفر ہوگا؛ اور اگر وہ بھی قتل ہوگیا تو عبداللہ بن رواحہ ہوگا؛ رضی اللہ عنہم ۔‘‘آپ نے تمام مجاہدین کو متعین نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی رجسٹر میں لکھے ہوئے تھے۔اور نہ ہی نقباء گھوم کر لوگوں کو ان کے نام لیکر متعین کرکے جہاد کے لیے نکالتے تھے۔بلکہ جب اتنے لوگ جمع ہوجاتے جن سے مقصود حاصل ہو جاتا ہو؛ تو پھر ان پر ایک امیر مقرر کردیتے؛ اورپھر انہیں روانہ کردیتے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا؛ تو یہ متعین نہیں کیا کہ کون کون لوگ ان کے ساتھ حج کرے گا۔ لیکن جن لوگوں نے آپ کے ساتھ حج کیا؛ آپ ان پر امیر تھے۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا؛ اور آپ کو یہ بتایا کہ آپ مامور بن کر جا رہے ہیں ۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ان پر امیر ہوں گے۔اور جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ان کے والد کے قتل ہوجانے کے بعد امیر مقرر فرمایا؛ تو انہیں اسی طرف روانہ فرمایا جہاں دشمن نے آپ کے والد کو قتل کیا تھا۔ اس لیے کہ آپ اسی کو مناسب مصلحت دیکھتے تھے۔ اورلوگوں کو آپ کے ساتھ جانے کی ترغیب دی۔تووہ لوگ چل پڑے جنہیں جہاد میں رغبت تھی۔ اور روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ جانے کے لیے نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو متعین کیا تھا؛ اور نہ ہی کسی دوسرے کو۔ لیکن جو لوگ آپ کے ساتھ نکلے تھے؛ ان کے امیر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ جیسا کہ آپ نے جب حضرت عتا ب بن اسید کو مکہ پر امیر مقرر فرمایا؛تو آپ ان تمام لوگوں پر امیر تھے جو مکہ میں تھے۔ایسے ہی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کو سرایا کا امیر مقرر کرتے ؛تووہ ان تمام لوگوں کے امیر ہوتے جو ان کے ساتھ شریک ہوتے۔سریہ پر جانے کے لیے امیر آپ اپنی مرضی سے مقرر فرمایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ آپ اس امیر کے ساتھ جانے کے لیے لوگوں کو متعین کرتے۔یہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی قوم کا امامت ہوتا تو اپنی قوم کے لوگوں کو نماز وہی پڑھایا کرتا تھا۔تو جو کوئی اس کے پیچھے نماز پڑھتا؛ یہ امام اس کا بھی امام ہوتا۔ بھلے کوئی مقتدی امام سے افضل ہی کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے ؛ حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے ۔ اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے ، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے ۔اور نہ اس کی حکومت میں ، اور نہ ہی اس کی
Flag Counter