Maktaba Wahhabi

381 - 645
ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی ہے....آگے یہاں تک کہ فرمایا....ادائے وصیت و قرض کے بعد ؛ بشرطیکہ میت نے ان میں سے کسی کا نقصان نہ کیا ہو ۔‘‘ یہ ان لوگوں کے لیے ایک شامل خطاب ہے جو کہ یہاں پر مقصود ہیں ۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے موجب ظاہر ہوتا ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت میں مخاطب ہیں ۔ مخاطب کا’’کاف ‘‘ ان کو شامل ہوتا ہے جو خطاب سے مقصود ہوں ۔ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی خاص اس خطاب سے مقصود ہے تو وہ اس خطاب میں شامل نہیں ہوگا۔ پھر بعض علماء کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ ضمائر مطلق طور پر تخصیص کو قبول نہیں کرتے ۔تو پھر ضمیر مخاطب کا کیاحال ہوگا؟ اس لیے کہ ضمیر خطاب تو صرف اس کے لیے ہوتی ہے جو مخاطب کا مقصود ہو؛ یہ ضمیر ان لوگوں کو شامل نہیں ہوتی جن کا قصد نہ کیا جائے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ضمیر عام ہے ‘ اور تخصیص قبول کرتی ہے ؛ توبلاشبہ یہ ان لوگوں کے لیے عام ہے جو اس خطاب سے مقصود ہیں ۔ اس آیت میں کوئی ایک اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کاتقاضا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان مخاطبین سے مقصود ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ : تصور کیجیے ! تمام ضمائر خطاب ؛ متکلم اور غائب بذات خود کسی متعین چیز پر دلالت نہیں کرتیں ؛ مگر اپنے قرائن کی روشنی میں ان کی دلالت واضح ہوتی ہے۔پس ضمائر خطاب ان لوگوں کے لیے وضع کی گئی ہیں جو مخاطب کے خطاب سے مقصود ہو۔ اور ضمائر متکلم کلام کرنے والے کے لیے ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ لیکن یہ بات معروف ہے کہ قرآن میں خطاب سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام مؤمنین ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ﴾ [البقرۃ ۱۸۳] ’’ اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ ﴾ [المائدہ ۶] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو ۔‘‘ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ [النساء۱۱] ’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو وصیت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے ۔‘‘ بلکہ کبھی کبھارقرآن مجید میں جمع کا ’’کاف ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مؤمنین کے لیے آتا ہے ۔ اور کبھی کبھار صرف مؤمنین کے لیے آتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter