Maktaba Wahhabi

379 - 645
مطہرات (رضی اللہ عنہم )نے روایت کی ہے۔ان لوگوں سے یہ روایت مسانید ‘ صحاح ؛ اور دوسری مشہور کتب احادیث میں موجود ہے؛جسے محدثین کرام اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اب رافضی کا اس روایت کو منفرد کہنا اس کی انتہائی جہالت یا جان بوجھ کر جھوٹ بولنے پر دلالت کرتا ہے۔ تیسرا جواب :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مقروض تھے‘‘ صریح کذب ہے۔ کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کے دعویٰ دار نہ تھے؛ اور نہ ہی اس مال کو اپنے اہل خانہ کے لیے روکنا چاہتے تھے۔ بلکہ آپ کا ترک کردہ مال صدقہ تھا اور وہ ان کو ملنا چاہیے تھاجو اس کے مستحق ہیں ۔ جیسا کہ مسجد مسلمانوں کا حق ہے۔اور عدل یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی دوسرے پرگواہی دے کہ اس نے اپنے گھر کو مسجد کے لیے وقف کرنے کی وصیت کی تھی یااپنے پانی کے کنوئیں کو عام گھاٹ بنانے یا پھر اپنی زمین کو قبرستان بنانے کی وصیت کی تھی۔ تو ایسی گواہی باتفاق مسلمین جائز ہے۔ اس کنوئیں سے پانی پیاجائے گا؛ اور اس زمین میں مردوں کو دفن کیا جائے گا۔اس لیے کہ یہ گواہی عوام کی طرف سے غیر محصور ہے ۔ اور گواہ بھی اس عموم کے حکم میں داخل ہے ۔ اس کے متعین ہونے کے لیے کسی خاص حکم کی کوئی ضرورت نہیں ۔ایسے معاملات میں کوئی فریق مخالف[خصوم] نہیں ہوتا۔ ایسے ہی کسی مسلمان کی بیت المال کے لیے گواہی کا مسئلہ ہے۔مثال کے طور پر کوئی گواہی دے کہ فلاں انسان کے پاس بیت المال کا کوئی حق ہے ؛ اور یہ گواہی دینا کہ فلاں انسان کا بیت المال کے علاوہ کوئی وارث نہیں ؛ اور ذمی پر گواہی دینا کہ اس نے عہد ذمہ توڑ دیا تھا ؛ اور اب اس کا مال مالِ فئے کے طور پر بیت المال میں داخل ہوگا؛وغیرہ ۔ اگر کوئی انسان گواہی دے کہ فلاں انسان نے اپنا مال فقراء اورمساکین پر وقف کردیا تھا تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اگرچہ گواہی دینے والا کوئی فقیر انسان ہی کیوں نہ ہو۔ چوتھا جواب :....حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس صدقہ کے مستحق نہ تھے۔ بلکہ وہ ایسی چیزوں سے بے نیاز انسان تھے۔ اور نہ ہی آپ نے خود اور نہ ہی آپ کے اہل خانہ نے اس صدقہ سے کسی قسم کا فائدہ اٹھایا۔ آپ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مالدار لوگوں کی ایک جماعت کسی انسان کے متعلق گواہی دے کہ اس نے اپنا مال فقراء کے لیے صدقہ کرنے کی وصیت کردی تھی تو ان لوگوں کی گواہی بالاتفاق مقبول ہوگی۔ پانچواں جواب :....یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کا فائدہ یہ حدیث روایت کرنے والے صحابہ کو بھی حاصل ہوتا ہو تو تب بھی ان کی روایت قبول کی جاتی ۔ اس لیے کہ اس کا شمار روایت کے باب میں ہوتا ہے گواہی کے باب میں نہیں ۔اسی لیے جب محدث کوئی ایسی حدیث بیان کرے جس میں اس کے اورفریق مخالف کے درمیان فیصلہ کن حکم موجود ہو تو اس کی روایت حدیث کو قبول کیا جائے گا۔ اس لیے کہ روایت کا حکم عام ہے اس میں راوی اور دوسرے لوگ برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ اس کا تعلق خبر کے باب سے ہے۔ جیسے کہ چاند دیکھنے کی گواہی۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوحکم بیان کیا ہے وہ راوی اور دوسرے لوگوں کے لیے عام ہے ۔ ایسے ہی جس چیز سے آپ نے منع کیا ہو‘ یا جس چیز کو مباح قرار دیا ہو۔
Flag Counter