Maktaba Wahhabi

378 - 645
پہلا جواب :....شیعہ نے جو قول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا تم اپنے باپ کے وارث بن سکتے ہواور میں اپنے والد کی وارث نہیں بن سکتی؟ اس قول کی صحت کا کوئی علم نہیں ہوسکا۔ اگریہ قول صحیح ثابت بھی ہوجائے تو اس میں رافضی کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے والد ِ محترم کو کائنات بھر کے کسی فرد و بشر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور ابو بکر مؤمنین کو ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ آپ کے والد محترم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اور نہ ہی آپ کاشمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن پر اللہ تعالیٰ نے نفلی یا فرض صدقہ کو حرام کیا ہے جیسے آپ کے والد محترم پر تھا۔ اور نہ ہی آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی محبت کو اللہ تعالیٰ اپنی جان و مال اور اہل خانہ کی محبت سے مقدم کرنے کا حکم دیا ہے؛ جیساکہ آپ کے والد محترم کے لیے یہ حکم تھا۔ [1] انبیائے کرام علیہم السلام اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے وارث بننے سے پاک رکھا ہے۔ تاکہ ان لوگوں کے لیے شبہ کی گنجائش نہ رہے جو کہتے ہیں : ’’انبیاء کرام علیہم السلام نے دنیا اس لیے طلب کی تھی کہ اسے اپنے بعد اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ جائیں ۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے امثال کو وہ مقام نبوت حاصل نہیں ہے جس پر قدح کا اندیشہ نہ ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خط و کتابت ؛ شعر گوئی وغیرہ سے محفوظ رکھا تھا تاکہ نبوت پر کوئی شبہ واقع نہ ہو۔اگرچہ کسی دوسرے کے لیے اس حفاظت میں کوئی حجت نہیں ہے۔ دوسرا جواب :....ہم کہتے ہیں : شیعہ مصنف کا اس کو منفرد روایت قرار دینا صاف جھوٹ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :’ہم وراثت نہیں چھوڑتے ؛ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘[2] یہ حدیث خلفاء اربعہ ، حضرت طلحہ، زبیر، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عباس، ابوہریرہ(رضی اللہ عنہم ) اور آپ کی ازواج
Flag Counter