Maktaba Wahhabi

376 - 645
اختیار کیا جائے اس کا شمار حرام کاموں میں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ oاِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ oفَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ﴾ ۔ [المؤمنون۵۔۷] ’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا(کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ(ان سے ) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ۔اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے )نکل جانے والے ہیں ۔‘‘ ٭ اس تحریم کے بعد متعہ کی جانے والی عورت نہ ہی بیوی رہتی ہے اور نہ ہی ملک یمین۔پس قرآنی نصوص کی روشنی میں اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ ملک یمین یعنی لونڈی تو نہیں ہوسکتی؛ یا صاف ظاہرہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہاں پر نکاح کے لوازم نہیں پائے جاتے۔ اس لیے نکاح کے لوازم میں سے ایک دوسرے کا وارث بننا ‘ اور شوہر کی موت کی صورت میں عدت وفات ؛ اور طلاق ثلاثہ کے احکام کا لازم آنا ہے۔اور اگر دخول سے پہلے طلاق ہوجائے تو اس صورت میں مرد پر آدھا مہر لازم آئے گا۔ان کے علاوہ دیگر لوازم بھی ہیں ۔ ٭ اگر یہ کہا جائے کہ : کبھی بیوی ایسی بھی ہوتی ہے جو کہ وارث نہیں بنتی ؛ جیسے کہ : ذمیہ اور لونڈی ۔ ٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: پہلی بات: شیعہ کے نزدیک ذمیہ سے نکاح جائز نہیں ۔اور لونڈی سے نکاح ضرورت کے وقت میں ہوتا ہے ۔ جب کہ یہ لوگ مطلق طور پر متعہ کو مباح ٹھہراتے ہیں ۔ دوسری بات :....ذمیہ اور لونڈی سے شادی کرنا توارث کے اسباب میں سے ہے؛ مگر یہاں پرتوارث کے موانع پائے جاتے ہیں اور وہ مانع ہے غلام ہونا اور کفر۔ جیسا کہ نسب وراثت کے اسباب میں سے ہے سوائے اس صورت کے کہ بیٹا یا تو کافر ہو یا پھر غلام ہو۔پس مانع اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غلام بیٹے کو آزادی مل جائے یا پھر کافر بیٹا اسلام قبول کرلے تووہ اس کی زندگی میں والد کا وارث بنے گا۔ بس یہی حال ذمی بیوی کاہے۔اگروہ اپنے شوہر کی زندگی میں اسلام قبول کرلے تو تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے شوہر کی وارث بنے گی۔اور ایسے ہی اگروہ غلام ہو اور شوہر کی زندگی میں اسے آزادی مل جائے ؛ اوروہ اس نکاح کو برقرار رکھے تو باتفاق مسلمین وہ وارث بنے گی۔ بخلاف اس عورت کے جس سے متعہ کیا گیا ہو؛ اس لیے کہ نکاح متعہ سے وراثت ثابت نہیں ہوتی۔اورنہ ہی کسی بھی صورت میں یہ وارث بن سکتی ہے۔ پس یہ نکاح اس ولد زنا کی طرح ہے جو کسی شوہر کے بستر پر پیدا ہوتا ہے ‘ تواس کا نسب کسی بھی صورت میں زانی سے نہیں ملایا جاسکتا۔ پس وہ اس کا بیٹا ثابت نہیں ہوسکتا کہ اس کا وارث بنے۔ ٭ اگر یہ کہاجائے کہ : نسب کے بعض احکام کی تبعیض ممکن ہے ۔ پس کی صورت اس نکاح کی بھی ہے ۔ ٭ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ: اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔جمہور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس میں شیعہ کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔ اس لیے کہ متعہ کی جانے والی عورت سے بیوی کے تمام احکام منتفی ہیں ۔ اس
Flag Counter