Maktaba Wahhabi

375 - 645
قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے ۔‘‘[صحیح مسلم کی یہ حدیث دو صفحات پہلے حاشیہ میں گزرچکی ہے]۔ ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرنے والے راویوں میں اختلاف ہے؛ کہ آپ کا قول : ’’خیبر والے سال ‘‘ کیا یہ گدھے کے گوشت کی حرمت کا وقت بیان کرنے کے لیے ہے یا پھر اس کے ساتھ ساتھ متعہ کی حرمت کے لیے بھی ؟ ٭ پہلا قول امام ابن عیینہ رحمہ اللہ اور دیگر علماء کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : متعہ فتح مکہ والے سال حرام ہوا ہے ۔ جب کہ دوسرے قول والے اصحاب کا کہنا ہے کہ : خیبر والے متعہ حرام ہواتھا پھر حلال ہوا‘ پھر دوبارہ حرام ہوا۔ اور ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس کے بعد بھی ایک بار متعہ حلال ہوا اور حجۃ الوداع والے سال حرام ٹھہرایا گیا۔ ٭ اس بارے میں مشہور روایات متواتر کی حدتک پہنچتی ہیں کہ حلال ہونے کے بعد پھر حرام ٹھہرایا گیا۔ درست بات یہ ہے کہ متعہ جب سے حرام ہوا ہے اس کے بعد دوبارہ کبھی حلال نہیں ہوا۔اور اس کی حرمت کا صحیح وقت فتح مکہ کا ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی حلال نہیں ہوا۔ خیبر کے موقع پراس کی حرمت نہیں آئی۔خیبر والے سال گھریلو پالتوگدھوں کا گوشت حرام ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے کے گوشت اور متعہ دونوں کو مباح سمجھتے تھے۔ جس پر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سخت انکار کیااور فرمایا: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کو اور گدھے کے گوشت کو خیبر کے دن حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں چیزوں کو ملاکر اس لیے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان دونوں کو مباح سمجھتے تھے ۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جب آپ کو نہی [ممانعت]کی حدیث پہنچی تو آپ نے اپنے سابقہ قول سے رجوع کرلیا تھا۔ پس اہل سنت والجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایت پر عمل کے لیے حضرت علی اور دوسرے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہیں ۔ جب کہ شیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منقول اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف چل رہے ہیں ‘اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی پیروی کررہے ہیں ۔ ٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں شادی اور ملک یمین کو حلال ٹھہرایا ہے۔ متعہ کروانے والی عورت ان دونوں میں سے کسی ایک قسم سے بھی تعلق نہیں رکھتی۔اس لیے کہ اگریہ بیوی ہوتی تو میاں بیوی دونوں ایک دوسے کے وارث بنتے۔ اور خاوند مرجانے کی صورت میں اس پر وفات کی عدت گزارنا بھی واجب ہوتی۔اس پر طلاق ثلاثہ کے احکام بھی مرتب ہوتے ۔اس لیے کہ بیوی کے یہ احکام کتاب اللہ میں موجود ہیں ۔جب لوازم نکاح ثابت نہیں ہوتے تو نکاح کی نفی ہوگئی ۔ اس لیے کہ لازم کے انتفاء کا تقاضا ہے کہ ملزوم کا بھی انتفاء ہو۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دو ہی چیزیں حلال ٹھہرائی ہیں : عقد نکاح اور ملک یمین ۔ اس کے علاوہ جو بھی طریقہ
Flag Counter