Maktaba Wahhabi

366 - 645
جن لوگوں [نے اسے زیر کے ساتھ[أرجلِکم]پڑھاہے ؛ان کا ] کہنا ہے : یہ جارو مجرور کی جگہ پرعطف ہے۔اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ : [وامسحوا برؤسکم وامسحوا أرجلِکم إلی الکعبینَ]’’ یعنی اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرلو۔‘‘ عربوں کا یہ کہنا: [مسحت الرجلَ]’’ میں نے اپنے پاؤں کا مسح کیا۔‘‘یہ اس قول کے مترادف نہیں : [مسحت بالرجل]۔اس لیے کہ جب فعل کو حرف باء کے ساتھ متعدی بنایا جائے تو اس سے الصاق ’’یعنی متصل‘‘ کا معنی پیدا ہوتا ہے۔ یعنی میں نے کسی چیز کو اس پر چسپاں کردیا۔اور اگر اس سے حرف باء کو حذف کردیا جائے تو بالاجماع اس سے مجرد مسح ہی مراد ہوگا۔ تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہاں پر پانی کے ساتھ پاؤں کا مسح کرنا مقصود ہے ؛ جس سے مراد پاؤں کا دھونا ہے ۔ یہ ایک مجمل کلام ہے جس کی تفسیر و توضیح سنت نبوی سے ہوتی ہے اور زیر کے ساتھ قرأت سے یہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام ! قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی بنا پر پاؤں دھونے کے وجوب کی نفی ہو۔بلکہ اس میں مسح کا وجوب ہے۔اگر اس بات کو مقدر مان لیا جائے کہ سنت نے قرآن کی عبارت سے زائد کسی چیز کوواجب کیا ہے ؛ تو پھر بھی اس صورت میں قرآنی حکم میں کوئی فرق نہیں آتا۔تو پھر اس صورت میں کیسے کوئی اعتراض کرسکتا ہے جب سنت قرآن کی وضاحت اور تفسیر کررہی ہو۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔ جملہ طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کی وضاحت کرتی ہے ‘اور اس کی تفسیر بیان کرتی ہے ‘ اس کے معانی پر دلالت کرتی ہے۔ پس سنت متواترہ کا تقاضا وہی ہے جو کہ بعض لوگوں نے قرآن کے ظاہری الفاظ سے سمجھا ہے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے قرآن کے الفاظ اور اس کے معانی بیان کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم سے ان لوگوں نے بیان کیا جو قرآن پڑھایا کرتے تھے‘ جیسے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام؛وہ فرماتے ہیں : ’’ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک کہ ان کے معانی بھی آپ سے نہ سیکھ لیتے ۔‘‘ جو کچھ امامیہ فرقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ: پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرنا فرض ہے؛ تو یہ ایسی بات ہے کہ قرآن سے کسی طرح بھی اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔اورنہ ہی ایسا کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اور نہ ہی سلف امت میں یہ چیز معروف تھی۔بلکہ یہ لوگ قرآن کریم ‘ سنت متواترہ ‘ اور سابقین اولین صحابہ اور تابعین کے اجماع کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ اس لیے کہ [أرجلَکم]کو جب زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس کا عطف ہاتھوں کے دھونے پر ہوتا ہے۔ پس زبر کے ساتھ اس کی قرأت پاؤں کے دھونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ ظاہری قرأت قرآن بھی اسی پر دلیل ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو ظاہر قرآن کا بھی کچھ بھی علم نہیں ۔ یہی حال ان تمام لوگوں کا ہے جو ضعیف اقوال پر عمل کرتے ہیں اور ظاہر قرآن پر عمل کے دعویدار ہیں ؛ حقیقت میں وہ لوگ سنت نبوی کی مخالفت کے مرتکب ہیں ۔ اس لیے کہ ظاہر قرآن میں ہر گز کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو کہ سنت کے مخالف ہو۔ جیسا خوارج کا دعوی ہے کہ ہم سفر
Flag Counter