Maktaba Wahhabi

354 - 645
ہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے : ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز داخل کی جو اس میں سے نہیں ہے ‘ تو وہ مردود ہے ۔‘‘ اگر ان پر ردکیا جائے تو ان کے جی اسے نا پسند کرتے ہیں ‘ اور دل اس سے متنفر ہوجاتے ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ جمعہ کے خطبہ میں خلفاء راشدین کا نام لینا۔حالانکہ بالاجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا اورنہ ہی صحابہ اور تابعین کے دور میں ایسا ہوتا تھا۔ نہ ہی بنو امیہ اور کے ؛ اور نہ ہی بنو عباس کے شروع کے دور میں ۔ بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جوکہ منصور نے اس وقت ایجاد کرلی جب اس کے اور علویوں کے مابین فتنہ پیدا ہوا۔ اس وقت اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں ان کے ناک خاک میں ملاؤں گااور ان پر بنی عدی اور بنی تیم کا ذکر بلند کروں گا۔ اس نے خطبہ میں صحابہ کرام کا نام لینا شروع کیا۔ اوریہ بدعت ہمارے اس دور تک جاری ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : [پہلی بات]: منبر پر خطبہ میں خلفاء راشدین کا ذکر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور میں شروع ہوا۔ بلکہ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ ذکر شروع ہوگیا تھا۔ اس مسئلہ میں ضبہ بن محصن کی روایت مشہور ترین احادیث میں سے ہے۔طلمنکی نے میمون بن مہران کی حدیث سے روایت کیاہے ؛ وہ کہتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ کے والی تھے۔ جب آپ جمعہ کا خطبہ دیتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ‘ اور پھر اس کے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے۔اس پر ضبہ بن محصن کھڑے ہوئے اور کہا: تو ان سے پہلے ساتھی کا ذکر کہاں گیا جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی افضلیت دیا کرتے تھے۔اس سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ جب کئی بار ایسے ہوا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دربار میں ضبہ بن محصن کی شکایت لکھ بھیجی کہ وہ ہم پر طعنہ زنی کرتا ہے ‘ اور اس قسم کی دیگر حرکات کا ارتکاب کرتا ہے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خط لکھ کر ضبہ بن محصن کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ بھیج دیا۔ جب ضبہ مدینہ دربار فاروقی میں پہنچے تو آپ کو اطلاع دی گئی کہ ضبہ العنزی دروازے پر اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔توآپ نے اجازت دیدی۔جب آپ اندر گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ ضبہ کو نہ ہی مرحبا اور نہ ہی اھلا [و سھلاً] ۔ اس پر ضبہ نے کہا: ’’ مرحبا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب اھلاً ؛ تو میرے پاس نہ ہی اہل ہیں اورنہ ہی مال۔ تو پھر آخر کر تم نے مجھے میرے شہر سے لیکر یہاں تک کی تکلیف کیوں دی؛ میں نہ ہی کوئی برا کام کیا تھا اور نہ ہی گناہ؟ تو آپ نے فرمایا: تمہارے مابین اور تمہارے گورنر کے مابین کیامعاملہ پیش آیا ؟ تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس بارے میں میں ابھی آپ کو خبر دیتا ہوں ۔جب وہ [حضرت ابو موسی] خطبہ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بعددوبارہ آپ کے لیے دعا کرتا ہے۔اس کی اس بات
Flag Counter