Maktaba Wahhabi

31 - 645
اس کا وجود ممکن تھا، اور ایک شے سے مقارن شے اسے مستلزم ہوتی ہے، اور اس کے عدم کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ ملزوم کا وجود لازم کے بغیر ممتنع ہے۔ جو قدریہ نے کہا ہے وہ ان کی فاسد اصل پر مبنی ہے، اور وہ یہ کہ رب تعالیٰ کا مومن و کافر اور نیک و فاجر کو قدرت دینا برابر ہے۔ یہ لوگ اس بات کا قول نہیں کرتے کہ رب تعالیٰ نے مطیع مومن کو اعانت کے ساتھ خاص کیا ہے جس کے ذریعے وہ ایمان حاصل کرتا ہے، بلکہ یہ لوگ یہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ کی مطیع و عاصی کو اعانت یکساں ہے۔ لیکن خود بندے نے طاعت کو ترجیح دی ہے، اور دوسرے نے خود معصیت کو ترجیح دی ہے۔ جیسے ایک والد جو اپنے ہر بیٹے کو ایک تلوار دے تو ایک تو مجاہد فی سبیل بنا اور دوسرا ڈاکو یا اس نے دونوں کو مال دیا تو ایک نے راہِ خدا میں خرچ کیا اور دوسرے نے وہ مال شیطان کی راہ میں لگا دیا۔ لیکن اس قول کے فاسد ہونے پر قدر کو ثابت کرنے والے اہل سنت کا اجماع ہے۔ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کی مومن مطیع پر نعمت دینیہ ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے نہ کہ کافر کے ساتھ۔ اور یہ کہ اس نے مومن کی وہ اعانت کی ہے جو کافر کی نہیں کی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَ ﴾ (الحجرات: ۷) ’’اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘ رب تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ایمان کو ان کے لیے محبوب و مزین فرمایا۔ قدریہ کہتے ہیں : یہ محبوب بنانا؛ اور مزین کرنا ساری مخلوق کے لیے عام ہے۔ یا یہ دلائل حق کے بیان و اظہار کی قبیل میں سے ہے۔ لیکن آیت کا مقتضی یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَ﴾ ’’اور وہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘جبکہ کافر راشدین [ہدایت والے]نہیں ہیں ، اور فرمایا: ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵) ’’ جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام: ۱۲۲) ’’اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہ
Flag Counter