Maktaba Wahhabi

276 - 645
رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے جابر ! اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا؛ اس کا نام علی ہوگا۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو آواز لگانے والا آواز لگائے گا : سید العابدین کہاں ہے ‘ اسے چاہیے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ تو اس کا بیٹا کھڑا ہوگا۔ پھر اس کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوگا ؛ اس کا نام محمد الباقر ہوگا۔ وہ ایک بار پڑھنے سے سارا علم حاصل کرلے گا۔ جب تم اس کو دیکھو تو اسے میرا سلام کہنا۔ آپ سے ابو حنیفہ اور دوسرے علماء نے روایات نقل کی ہیں ۔ ٭ آپ کابیٹا الصادق اپنے زمانہ کا سب سے افضل اور عابد انسان تھا۔علماء سیرت کا کہنا ہے : آپ حکومت طلبی چھوڑ کر عبادت میں ہی مشغول رہے ۔ عمر بن ابو المقدام کہتے ہیں : جب میں جعفر بن محمد الصادق کی طرف دیکھا کرتا تو پتہ چل جاتا تھا کہ آپ انبیاء کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ نے ہی فقہ امامیہ ؛ معارف حقیقت اور عقائد یقینیہ کی نشرو اشاعت کاکام کیا۔ آپ جب بھی کسی بات کی خبر دیتے تو وہ بالکل ویسے ہی پوری ہوتی۔ اس لیے آپ کا نام صادق اور امین رکھا گیا تھا۔ ٭ عبد اللہ بن الحسن نے تمام علویوں کو اپنی اولاد کی بیعت کے لیے جمع توامام صادق نے فرمایا: ایسے نہیں ہوسکتا۔ اس پر عبد اللہ کو غصہ آگیا۔اور اس نے کہا : یہ پیلے جبے والے کا ساتھی ہے ۔ اس سے منصور کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔۔ جب منصور تک یہ خبر پہنچی تو وہ بہت خوش ہوا کیونکہ جیسے آپ نے خبر دی تھی ویسے ہی ہونا تھا۔اور اس نے جان لیا کہ اب خلافت اسے مل کر رہے گی۔اور جب وہ بھاگ رہا تھا تو کہہ رہا تھا: تمہارے صادق کی پشین گوئی کہاں ہے ؟اور پھر بعد میں خلافت اسے ہی مل کر رہی۔ ٭ آپ کا بیٹا موسی الکاظم ہے ؛ اسے العبد الصالح [نیک انسان] کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عابد و زاہد تھے ۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو نماز پڑھتے رہتے ۔آپ کو کاظم اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی کے متعلق سنتے کہ وہ آپ کی برائی بیان کررہا ہے تو آپ اس کے پاس کچھ مال بھیج دیا کرتے ۔ آپ کے فضائل موافقین و مخالفین نے نقل کیے ہیں ۔ حنابلہ میں سے ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : شقیق البلخی سے روایت کیا گیا ہے : ’’ وہ کہتے ہیں : میں ایک سو چورانوے ہجری میں حج کے لیے نکلا۔ پس میں نے وہاں پر ایک نوجوان کو دیکھا ؛ خوبصورت چہرہ اور گوری رنگت ۔ اس پراونی لباس تھا؛ جو کہ شملہ پر مشتمل تھا۔اور اس کے پاؤں میں دو جوتیاں تھیں ۔ وہ لوگوں سے الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے جی میں کہا: ’’یہ نوجوان صوفیاء میں سے ہے جو لوگوں پر بوجھ بننا چاہتا ہے ۔اللہ کی قسم ! میں اس کے پاس جاؤں گا اوراسے جھڑکوں گا۔جب میں آپ کے قریب ہوا؛ تو آپ نے مجھے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ لیا ۔ آپ نے فرمایا: اے شقیق ! بدگمانی سے بہت زیادہ بچاکر۔ اس لیے کہ بدگمانی گناہ کاکام ہے ۔ میں نے اپنے جی میں کہا: یہ کوئی نیک انسان ہے ‘ اس نے وہی بات کہی جو میرے دل میں تھی۔ میں ضرور اس کے پاس جاؤں گا‘ اور اس سے سوال و جواب کروں گا۔ تو آپ میری نظروں سے غائب ہوگئے ۔ جب ہم نے اگلی منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ وہاں پر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ کے اعضاء
Flag Counter