Maktaba Wahhabi

275 - 645
جس کے بدلے میں میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قربانی پیش کی ہے ۔اسی طرح امام زین العابدین اور امام باقر بھی بڑے عابد شب زندہ دار تھے اور کتاب اللہ کی تلاوت میں مگن رہتے ۔ اور دن و رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔اورہر دو رکعتوں کے بعد اپنے آباء کرام سے منقول دعائیں پڑھا کرتے۔اور بے قراری کے عالم میں مصحف کو چھوڑ دیتے؛....اور پھر فرمایاکرتے: مجھے علی رضی اللہ عنہ والی عبادت کہاں نصیب ہوگی؟آپ بہت زیادہ رویا کرتے تھے یہاں تک کہ کثرت گریہ کی وجہ سے آپ کے گالوں کا گوشت ختم ہوگیا تھا۔اور آپ کو لمبے سجدہ کرنے کی وجہ سے آپ کوذا ثفن (لمبا سجدہ کرنے والا] کا نام دیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو زین العابدین کا خطاب دیا تھا۔جب ہشام بن عبد الملک نے حج کیا تو حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کی؛ مگررش کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اتنے میں زین العابدین تشریف لائے؛ تو لوگ ٹھہرے گئے ؛ اور آپ کے لیے جگہ چھوڑ دی؛ یہاں تک کہ آپ نے حجر اسود کااستلام کیا۔اس وقت آپ کے علاوہ کوئی ایک بھی حجر اسود کے پاس باقی نہ رہا۔ یہ دیکھ کر ہشام بن عبد الملک نے کہا : یہ کون ہے؟ تو فرزدق شاعر نے اپنا وہ مشہور قصیدہ پڑھ دیا جو امام زین العابدین کے بارے میں زبانِ زد خلائق ہے۔[قصیدہ یہ ہے:] اس قصیدہ کو سن کر ہشام طیش میں آ گیا اور اس نے مکہ اور مدینہ کے درمیان فرزدق کو قید کر دینے کا حکم دے دیا اس پر فرزدق نے اسے یہ اشعار لکھ بھیجے: ’’کیا تو مجھے مدینہ کے درمیان اور اس شہر کے درمیان قید کرتا ہے جس کی طرف لوگوں کے دلوں کو راغب کیا گیا ہے۔ کیا تم اس سر کو پلٹتے ہو جو سردار کا سر نہیں اور اس آنکھ کو بدلتے ہو جو بھینگی ہے اور اس کابھینگا پن بالکل عیاں ہے۔‘‘ ٭ تو حضرت زین العابدین رحمہ اللہ نے فرزدق کو ہزار دینار بھیجے ۔ اس نے وہ دینار واپس کردیے؛ اور کہا: میں نے یہ اشعار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے غصہ کھاتے ہوئے کہے ہیں میں ان پر کوئی اجرت نہیں لیتا ۔ تو حضرت علی بن الحسین رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ہم اہل بیت ہیں ؛ جو کچھ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے ‘ ہم اسے واپس نہیں لیا کرتے ۔ تو فرزدق نے وہ دینار قبول کرلیے۔ ٭ مدینہ میں کچھ لوگ تھے جنہیں رات میں ان کا غلہ پہنچ جایا کرتا تھا ؛ مگر انہیں علم نہیں ہوتا تھاکہ یہ کہاں سے آتا ہے۔ جب زین العابدین کا انتقال ہوگیا تو اس رزق کا آنا بند ہوگیا ؛ تو انہیں پتہ چل گیا کہ یہ زین العابدین رحمہ اللہ کی طرف سے تھا۔ آپ کا بیٹا محمد الباقر رحمہ اللہ لوگوں میں سب سے بڑا عابد و زاہد انسان تھا۔ آپ کی پیشانی پر سجدہ کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام باقر رکھا تھا۔ جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے ۔ آپ اس وقت بہت چھوٹے تھے ؛جابر نے کہا : آپ کے نانا نے آپ کو سلام کہا ہے ۔ آپ نے کہا : اور میرے نانا پر بھی سلام ہو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا؛ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں کھیل
Flag Counter