Maktaba Wahhabi

268 - 645
جو شخص لوگوں میں اپنے اوصاف حمیدہ کی بنا پر معروف ہو اور لوگ اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہوں ، تو اس کے بارے میں اہل سنت کے دو قول ہیں : مذکورۃ الصدربیانات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ شیعہ کے یہاں کوئی ایسا محمودجزم ووثوق نہیں پایا جاتا جو اہل سنت میں موجود نہ ہوں ۔ اگر شیعہ کہیں کہ ہم جس آدمی کو بھی شرعی واجبات پر عمل پیرا اور منہیات سے باز رہنے والا دیکھتے ہیں اسے قطعی جنتی قرار دیتے ہیں خواہ اس کے باطن کا حال ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس مسئلہ کا امامیہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر اس کی جانب کوئی صحیح راستہ جاتا ہے تو بالاتفاق اہل سنت کا راستہ ہے اور کوئی راستہ موجود نہیں تو یہ قول بلا علم ہے جو کسی فضیلت کا موجب نہیں ، بلکہ اس کا نہ ہونا فضیلت کا باعث ہے۔ خلاصہ کلام ! بہر حال شیعہ جس بھی علم صحیح کے دعویٰ دار ہوں اہل سنت ان کی نسبت اس کے زیادہ حق دار ہوں گے اور اگر وہ جہالت کے مدعی ہوں تو جہالت ایک نقص ہے اور اہل سنت اس سے بعید تر ہیں ۔ کسی مخصوص آدمی کے جنتی ہونے کی ضمانت یا تو معصوم[1] (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قول کی بنا پر دی جا سکتی ہے یا مومنین کے متفق علیہ قول کی وجہ سے۔ اس لیے کہ اہل ایمان اس خطہ ارضی پر اﷲ کے گواہ ہیں ، حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے مرنے والے کی مدح و ستائش کی، یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’ وَجَبَتْ ‘‘(واجب ہوگئی)۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی مذمت کی تو آپ نے وہی الفاظ دہرائے ۔ صحابہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’جس جنازہ کی تم نے تعریف کی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی اور جس کی مذمت کی اس کے لیے جہنم، تم زمین پر اﷲ کے گواہ ہو۔‘‘ [2] اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قریب ہے کہ تم اہل جہنم میں سے اہل جنت کو پہچان لو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ کیسے ؟
Flag Counter