Maktaba Wahhabi

267 - 645
کو حلال سمجھنے اور واجبات ترک کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جنت کی ضمانت بھی دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ : ہم نے آپ سے نمازیں اور روزے اور زکوٰۃو اور حج ساقط کردیے ہیں ۔ او رہم اس کا دو ٹوک یقین رکھتے اوراظہار کرتے ہیں ۔ اثنا عشری کہتے ہیں : ’’کوئی انسان اس وقت تک جنت کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک وہ محرمات کو ترک نہ کردے اور واجبات کو بجانہ لائے۔اگرپختہ نجات کے صرف دعوی پر ان کی اتباع کرنی چاہیے تو پھر یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت سے اتباع کے زیادہ حق دار ہیں جو کہتے ہیں : جب تم گناہ کروگے تو تمہیں سزا ہوسکتی ہے ؛ یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کردے ۔ پس یہ انسان خوف اور امید کے درمیان میں رہتا ہے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔اس سے واضح ہوگیا کہ صرف اپنی نجات کے پختہ یقین کا دعوی کرلینا کسی کے اہل علم اور سچا ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔اور ایسے موقع پر اہل عقل لوگوں کی عادت یہ ہے کہ توقف اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے لیے دلیل کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوجائے۔ چوتھی وجہ:....شیعہ کا یہ قول کہ ’’ شیعہ اپنے ائمہ کے ناجی ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، جب کہ اہل سنت میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔‘‘ جواب:....اگر شیعہ مصنف کی مراد یہ ہے کہ ایسا اعتقاد رکھنے والاہر ایک انسان ضرور جنت میں جائے گا، خواہ وہ شرعی اوامر کا تارک ہو اور منہیات سے کنارہ کش نہ رہتا ہو؛ تو بلاشبہ یہ امامیہ کا قول نہیں بلکہ کوئی ذی عقل اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایک ایسی عظیم نیکی ہے جس کی موجودگی میں کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے شخص کو نمازوں کے ترک کرنے، زنا کاری کا ارتکاب کرنے اور بنی ہاشم کا خون بہانے سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بشرطیکہ وہ حب علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ دار ہو۔اگر شیعہ یہ کہیں کہ سچی محبت تبھی ہو سکتی ہے، جب محب دیگر اعمال میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتا ہو تو انہوں نے از خود اداء واجبات اور ترک منکرات کی ضرورت کو تسلیم کر لیا۔ اگر شیعہ مصنف یہ کہنے کے درپے ہے کہ جو شخص عقائد صحیحہ رکھتاہو‘ واجبات ادا کرتاہو؛ اور منکرات سے باز رہتا ہو؛ وہ جنت میں جائے گا۔ تو بلاشبہ اہل سنت بھی یہی کہتے ہیں ۔ قرآن کریم کی اتباع میں اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ہر متقی کے لیے نجات یقینی ہے۔ البتہ وہ کسی متعین شخص کے بارے میں وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ: وہ جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ اس کا زمرہ متقین میں شامل ہونا قطعیت کے ساتھ تو معلوم نہیں ۔ جب کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی موت تقویٰ پر ہوئی ہے تو اس کا جنتی ہونا بھی معلوم ہوجائے گا۔ بنا بریں اہل سنت ان لوگوں کو جنتی قرار دیتے ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔[1]
Flag Counter