Maktaba Wahhabi

242 - 645
ایسا کرنا جائز ہے ؛ تو اس نے جواب دیا ہے کہ انسانی جان یاعضو کو قصاص میں ختم کرنے میں اس سے بڑا فساد ہے ؛ مگر ایسا کرنا بطور عدل اور قصاص کے جائز ہے۔کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کو ظلم و سرکشی سے روکا جاتا ہے ؛ اور مظلوم کے دل کے لیے تسلی کا سامان ہے ۔ جو اس کو ناجائز کہتے ہیں ان کاکہنا ہے کہ : اگر جان کے بدلے جان کی قصاص مشروع نہ ہوتی تو لوگ قتل کرنے سے نہ رکتے ۔ اس لیے کہ قاتل کو علم ہوتا کہ جب وہ قتل کرے گا تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ وہ دیت ادا کردے گا؛ تو اس طرح وہ قتل کا ارتکاب کرکے دیت ادا کردیتا ؛ بخلاف اموال کے ۔جبکہ اموال تلف کرنے والے سے اس مال کی طرح کا مال لیا جاسکتا ہے۔ پس اس سے قصاص اور تنبیہ حاصل ہوجاتے ہیں ۔جب کہ مال کو ضائع کردینے میں کوئی حکمت نہیں ؛ اس لیے کہ جس کا مال ضائع ہوا ہے وہ اس کا ضرورت مند ہے۔اورقصاص کی صورت میں مال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور اس کا عوض بھی۔ اس میں مظلوم کی تسلی کے بجائے مزید غصہ کا سامان ہے ۔ ہاں اگر یہ صورت حال ہو کہ اس سے قصاص اس کا مال تلف کیے بغیر لینا نا ممکن ہو توپھر اس کا جواز صاف ظاہر ہے۔اس لیے قصاص لینا عدل ہے اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی سے دیا جاسکتا ہے۔پس جب کوئی انسان کسی کا مال ضائع کردے ؛ اور اس کا مال تلف کیے بغیر اس سے قصاص لینا نا ممکن ہو تو پھر ایسا کرنا جائز ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام کفار کے درخت اور ان کی کھیتی باڑی ضائع کرنے پر متفق ہیں ؛ لیکن یہ اس صورت میں ہوگا جب وہ ہمارے ساتھ ایسا کریں ۔ یا جب کفار پر غلبہ حاصل کرنا اس کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اور اس کے بغیر اگر غلبہ ممکن ہو تو پھر کھیتی باڑی ضائع کرنے کے جواز کے بارے میں اختلاف بڑا مشہور ہے۔ امام ا حمد رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں ‘اور امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے لوگ اسے جائز کہتے ہیں ۔ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ لہو ولعب کے آلات ائمہ اربعہ کے ہاں معروف ہیں ۔ اس بارے میں ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی اختلاف نقل نہیں کیا گیا؛ سوائے خراسان کے متأخرین شافعیہ کے ۔ ان سے اس مسئلہ میں دو قول نقل کیے گئے ہیں ‘ صحیح ترین قول اس کی حرمت کا ہے ۔ جبکہ اہل عراق اور قدیم اہل خراسان سے اس بارے میں کوئی اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ جب کہ فقط مجرد گانا گانا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ ؛امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق حرام ہے ۔اور ان دونوں ائمہ کے ایک قول میں مکروہ ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک جماعت کا خیال ہے کہ صرف گانا گانا مباح ہے۔ اگراس قول کو حق مان لیا جائے تو اس میں کوئی ضرروالی بات نہیں اور اگریہ قول باطل ہو تو پھر بھی جمہور اہل سنت والجماعت گانے کو حرام کہتے ہیں ۔ پس حق اہل سنت والجماعت سے باہر نہیں ہے۔
Flag Counter