Maktaba Wahhabi

241 - 645
روایتوں میں سے ایک یہی ہے ۔ جیساکہ حضرت موسی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو تلف کردیا تھا جسے سونے سے بنایا گیا تھا۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وہ رنگے ہوئے دوکپڑے جلانے کا حکم دیا ؛ جوکہ آپ پہنے ہوئے تھے۔‘‘[1] جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پرپہلے وہ ہانڈیاں توڑنے کا حکم دیا تھا جن میں گدھے کا گوشت پکا ہوا تھا۔پھر ان کے لیے ہانڈیوں میں موجود سالن وغیرہ گرانے کی اجازت دے دی۔[2] تو حدیث دونوں باتوں کے جواز پر دلالت کرتی ہے ۔ اورشراب حرام ہونے کے موقع پر آپ نے وہ ڈول توڑنے اور مشکیں پھاڑنے کا حکم دیدیا تھا جن میں شراب ہوتی تھی اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما نے وہ گھر جلانے کا حکم دیدیا تھا جہاں پر شراب فروخت ہوتی تھی۔ جو اس کو جائز نہیں کہتے : جیسے اصحابِ امام ابو حنیفہ؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ اپنے ایک قول میں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے : یہ مالی عقوبات ہیں جو کہ منسوخ ہوچکی ہیں ۔جب کہ پہلے قول والے لوگ کہتے ہیں : ان میں سے کچھ بھی منسوخ نہیں ہوا۔ اس لیے کہ نسخ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب بعد والی نص پہلی نص سے متعارض ہو۔اس طرح کی کوئی چیز شریعت میں وارد نہیں ہوئی۔بلکہ مالی عقوبات بھی بدنی عقوبات کی طرح ہیں جنہیں مشروع طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بلکہ مالی عقوبات نافذکرنا بدنی عقوبات کی نسبت زیادہ اہم و اولی ہیں ۔اس لیے کہ جان یا کسی انسانی عضو کا ضائع ہوجانا مال کے ضائع ہونے سے زیادہ خطرناک اور برا ہے۔ جب بدنی عقوبات و سزائیں بھی شریعت نے مقرر کی ہوئی ہیں تو پھر مالی عقوبات اور سزائیں بالاولی مشروع ہیں۔ ایسے ہی علمائے کرام کے مابین قصاص ِ اموال کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔جب کوئی انسان کسی کی قمیض پھاڑ دے تو کیا وہ بھی قصاص میں اس کی قمیض اتنی ہی مقدار میں پھاڑ دے ؟ اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کے دو قول ہیں : پس جس نے یہ کہا ہے : ایسا کرنا جائز نہیں ؛ ان کا مقصدیہ ہے کہ : ایسا کرنے میں فساد ہے ۔ اور جس نے کہا ہے :
Flag Counter