Maktaba Wahhabi

232 - 645
دونوں عورتوں سے پیدا ہوا ہے۔ ایسے ہی جب کوئی انسان اپنی بیوی کو وطی سے پہلے طلاق دیدے؛ توبچے کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا؛اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ بچہ اس کے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ آپ نسب کے ثبوت کے لیے حقیقی ولادت کو شرط نہیں مانتے ۔ بلکہ آپ کے نزدیک بیٹا خاوند کا ہوگا۔ جو کہ اصل میں صاحب فراش ہے ۔حالانکہ اسے قطعی یقین ہے کہ یہ عورت اس سے حاملہ نہیں ہوئی ۔[1] یہ بالکل ویسے ہی ہے جب کوئی انسان اپنی دو بیویوں میں سے کسی ایک کو طلاق دے ‘اور خود مرجائے ؛ یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کونسی بیوی کو طلاق دی ہے ؟ تو اس کی وراثت دونوں بیوں میں تقسیم کی جائے گی۔جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دونوں بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالاجائے گا۔اورامام شافعی رحمہ اللہ نے اس میں توقف کیا ہے ‘ ان کے نزدیک کوئی فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک معاملہ واضح نہ ہوجائے یا پھر دونوں آپس میں صلح کرلیں ۔جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ [اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی] مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ بچہ اس کا نہیں ہے تو پھر نہ ہی اس سے نسب ثابت ہوگا اورنہ ہی کوئی دوسرا حکم ۔ جب کہ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بچے کی نفی کے باوجود بعض احکام ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا صلبی بچہ ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ فقہی مسائل غلط ہیں تو اس میں شبہ نہیں کہ جمہور ائمہ ان کے خلاف ہیں اور اگر درست ہیں تو اقوال اہل سنت سے خارج نہ ہوں گے۔ جیسا کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ بھی کہاہے کہ : اگر کوئی انسان اپنے سے بڑی عمر کے غلام سے اگر یہ کہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔ تواسے اس غلام کے آزاد کرنے سے کنایہ سمجھا جائے گا؛ اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔ جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں یہ ایسا اقرار ہے جس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہے ۔ اس کی بنا پر کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوگا۔پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جو الزام لگایا جارہا ہے ‘اگر وہ حق ہے تو جمہور اہل سنت آپ کی موافقت کرتے ہیں ۔اوراگر جھوٹ و باطل ہے تو اس سے باقی لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔حالانکہ الزام لگانے والا اس خیال سے الزام لگاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ : یہ اولاد اسی آدمی کے پانی سے ہے ؛ اگرچہ اس کا اپنی بیوی سے اجتماع نہ بھی ہوا ہو۔ایسی بات تو انتہائی درجہ کا بیوقوف انسان بھی نہیں کہہ سکتا۔توپھر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق اس قسم کے الزام کو کیوں سچ سمجھا جاسکتا ہے ۔ مگر آپ کایہ خیال ضرور ہے کہ آپ ولادت کا نہیں ؛ بلکہ نسب کا حکم لگاتے ہیں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں آپ منفرد ہیں ؛ جمہور نے آپ کی مخالفت کی ہے ‘ اور اس قول کو مبنی بر خطاء کہا ہے ۔ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے شوہر کے لیے وطی ممکن ہونے
Flag Counter