Maktaba Wahhabi

231 - 645
بالاتفاق حرام قرار دیتے ہیں ؛امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول بھی یہی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ کا خیال نہیں تھا کہ اس مسئلہ میں کوئی نزاع ہوگا؛ اس وجہ سے انہوں نے اس کے مرتکب کے واجب القتل ہونے کا فتوی دیاتھا ۔ جن لوگوں نے اس کے جواز کا کہا تھا جیسے : امام شافعی اور ابن ماجشون ؛[انہوں نے اسے احکام وراثت پر قیاس کیا تھا؛اس لیے کہ] ان کا خیال ہے کہ جب [زنا کی اولاد کو ] وراثت نہیں مل سکتی ؛ تو اس کے باقی سارے احکام کی بھی نفی ہوگی۔ اسی طرح حرمت کا مسئلہ بھی ان ہی احکام میں سے تھا۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں : نسب کے احکام وراثت کے احکام سے مختلف ہوتے ہیں ۔بعض انساب کے لیے ایسے احکام ثابت ہوتے ہیں جو دوسرے بعض انساب کے لیے نہیں ہوتے۔جب کہ تحریم کا لفظ ان تمام احکام کو بھی شامل ہے اگرچہ وہ مجازاً ہی اس کے دائرہ میں آتے ہوں ۔ یہاں تک کہ[اس ]بیٹی کی بیٹی بھی حرام ہوجاتی ہے۔بلکہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔تو پھر جو لڑکی اسی کے پانی سے پیدا ہوئی ہو وہ حکم ِ حرمت کی زیادہ حق دار ہے۔ بخلاف وراثت کے۔وراثت ان لوگوں کے لیے ہی ثابت ہوسکتی ہے جنہیں میت کی طرف منسوب کیا جاتا ہو۔ پس وراثت بیٹوں کی اولاد کے لیے توثابت ہوتی ہے مگر بیٹیوں کی اولاد کے لیے نہیں ۔ محرمات سے نکاح کرنے کی صورت میں صورتی عقد کی موجودگی میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حد شرعی کے قائل نہ تھے ان کی رائے میں شبہ کی بنا پر حد ساقط ہوجاتی ہے۔جبکہ بقیہ ائمہ کرام رحمہم اللہ اسے شبہ نہیں قرار دیتے ۔بلکہ وہ فرماتے ہیں : اس میں حد مغلظ ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے دو حرام کاموں کا ارتکاب کیا ہے : حرام عقد ؛ اور وطی۔ ایسے ہی لواطت کا مسئلہ بھی ہے؛ اکثر ائمہ لواطت کنندہ کے مطلق قتل کے قائل ہیں ۔اگرچہ وہ شادی شدہ نہ بھی ہو۔ بعض کے نزدیک اس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔اہل مدینہ جیسے: امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک بھی یہی ہے۔ امام احمد و شافعی رحمہما اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے۔اس کے مطابق اگر لواطت کرنے والا بالغ ہو تو اسے قتل کیاجائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ لواطت کی حد وہی ہے جو زنا کی ہے،یہ امام ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول ہے؛اور امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لواطت کرنے والا زانی کی طرح ہے۔ اوریہ بھی کہا گیا ہے :مفعول بہ کو مطلق طور پر قتل کیا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیاہے : اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فاعل کے اعتبار سے اس میں فرق کیا جائے گا۔ حد شرعی کے اسقاط میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ منفرد ہیں [اور اس مسئلہ میں دوسرا کوئی امام آپ کا ہم خیال نہیں ]۔ اسی طرح مشرق میں سکونت رکھنے والی عورت کے بچے کامغربی آدمی کے ساتھ الحاق بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا انفرادی مسلک ہے اور دوسرے ائمہ اس کی تائید نہیں کرتے۔ دراصل امام صاحب کا نقطہ نظریہ ہے کہ نسب کا اثبات صرف میراث حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے،اس مقصود کے مطابق وراثت تقسیم کی جائے گی ۔ جیسا کہ جب دوعورتیں ایک بچے کی وراثت کادعوی کریں تو وہ وراثت ان دونوں کے درمیان تقسیم کی جائے گی؛ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ ان
Flag Counter