Maktaba Wahhabi

191 - 645
یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ واقع میں بھی ایسا ہے ۔ بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اور جس پر بھی وہ قادر ہے، وہ اس کے وقوع میں شک نہیں کرتے۔ بلکہ یہ مانتے ہیں کہ فی الحال یہ واقع نہیں ہے اور وقوع کو جائز قرار دینا یہ اس میں شک کرنے کے علاوہ ایک امر ہے۔ لیکن اس ناقل کی عبارت تقاضا کرتی ہے کہ ایسااس وقت میں موجود بھی ہے؛ لیکن ہم اسے نہیں دیکھ سکتے ۔ پر اس کا کوئی بھی عاقل قائل نہیں ہے۔ایسا صرف الزامی طور پر کہا گیا ہے۔ان سے یہ کہا جائے گا کہ: جب تم لوگ اس کے قائل ہوکہ بغیر کسی جہت کے دیکھا جاسکتا ہے ؛ تو انہوں نے بھی اس کو جائز کہا ہے۔ تووہ کہتے ہیں : ہاں ہم اس کو جائز کہتے ہیں ۔ جیسے تم اس بات کو جائز کہتے ہو کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار جائز ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں اپنا دیدار کرا دے حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی اللہ تعالیٰ کے دیدار پر قادر نہیں ۔ہاں اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار الٰہی کے متعلق اختلاف ہے۔ پس ان میں سے جو کوئی اس دنیا میں دیدار واقع ہونے میں شک کا شکار ہوا؛ وہ اس کی نفی کے دلائل سے اپنی جہالت کی بنا پر اس کا شکار ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کے لیے اس دنیا میں رب تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بارے میں اشعری نے دو قول نقل کئے ہیں ۔ لیکن جس پر تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے؛ وہ یہ عقیدہ ہے کہ کوئی ایک بھی اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے رب تعالیٰ کا دیدار نہیں کرسکتا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نے اس نفی پرسلف صالحین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ۔صحیح مسلم اوردیگر کتب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمایا: ’’جان لیجیے تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا حتی کہ وہ مرجائے۔‘‘[سبق تخریجہ] حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کا سوال کیا تھا؛ تو آپ کو منع کردیا گیا۔ پس عوام الناس میں سے کوئی ایک حضرت موسی علیہ السلام سے افضل نہیں ہوسکتا۔ اور جملہ طورپر ہر وہ بات جو کہنے والا کہہ دیتا ہے کہ :’’بیشک ایسا ہونا ممکن اور مقدور ہے؛‘‘ اس کے واقع ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔ اشاعرہ اور ان کی موافقت رکھنے والے شوافع؛ مالکیہ اور حنابلہ اگرچہ رؤیت کے بارے میں عادت کے برعکس بعض امور کے جائز ہونے کا کہتے ہیں ۔ پس وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین کوئی حجاب نہیں ہوتا؛ مگر اتنی بات ہے کہ آنکھوں میں دیدار کی صلاحیت نہیں پیدا کی گئی۔ ایسے ہی ان کا تمام مرئیات کے بارے میں کہنا ہے۔ پس وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ آنکھ میں ایسی کو ئی امتیازی قوت ہو جس کی بنا پر دیدار کا حصول ممکن ہوسکے۔ اور اس بات کو بھی ممنوع کہتے ہیں کہ اسباب اور مسببات میں کوئی التزام؍[ملازمت] ہو۔ اور یہ کہ موانع اور ممنوعات کے مابین کو ممانعت ہو۔ وہ ان تمام چیزوں کو محض عادت قرار دیتے ہیں ؛ جو محض مشئیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ اور پھر اس محض مشئیت سے خرق عادت کے ہونے کو جائز کہتے ہیں ۔
Flag Counter