Maktaba Wahhabi

183 - 645
’’اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیاہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں ، جن کی عبادت کی جائے؟‘‘ یہ موضوع دوسری جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہاں پر اتنا بتانا مقصود ہے کہ یہاں پر الوہیت کا امتناع اس اعتبار سے بیان ہورہا ہے جو غیر اللہ کی عبادت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کی اصلاح صرف معبود لذاتہ ہی میں ہے۔ خواہ وہ ان کے افعال کی غایت اور حرکات کے انجام کے اعتبار سے ہو؛ یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے مناسب اور کار گر نہیں ہوسکتی ۔ اگرزمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اس اعتبار سے ان کے نظام میں خرابی اور فساد پیدا ہوجاتا ۔ پس بیشک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی معبود برحق محبوب لذاتہ ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی مشئیت کے اعتبار سے رب اور خالق ہے۔ اسی معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ہے: ’’ سچی بات جو شاعر نے کہی ہے؛ وہ لبید کی بات ہے؛ [وہ کہتا ہے]؛ ألا کل شئی ما خلا اللّٰہ باطل وکل نعیم لا محالۃ زائل ’’آگاہ رہو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز باطل ہے۔ اور ہر نعمت نے لا محالہ ختم ہو جانا ہے‘‘[1] اسی لیے اللہ تعالیٰ سورت فاتحہ میں یوں فرماتے ہیں : ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ (الفاتحۃ۳) ’’ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں ۔‘‘ یہاں پر سورت فاتحہ میں اسم ’’اللہ ‘‘کو اسم ’’رب ‘‘ پر مقدم کیا گیاہے؛ جیسا کہ ارشاد فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ پس معبود ہی مقصود اور مطلوب اور محبوب لذاتہ ہوتا ہے۔اور وہی غایت اور معین ہے۔ وہی خالق و باری اور مبدع ہے۔ اسی سے ہر چیز کی ابتداء ہوتی ہے؛غایات کا حصول بدایات پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بدایات غایات کی طلب کے لیے ہوتی ہیں ۔ پس الوہیت غایت [انتہیٰ اور انجام ] ہے۔ اور اس کی حکمت اسی سے متعلق ہوتی ہے۔ پس وہی ذات بذات خود اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے؛ اس سے محبت کی جائے؛ اور اس کی حمد و ثناء اور بزرگی بیان کی جائے۔ وہ ذات پاک خود اپنی تعریف بیان کرتی ہے؛ اور اپنی ہستی کے لیے ثنا خواں ہے؛ اس کی بزرگی بیان کرتی ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی تعریف کیا گیا ؛ یا تعریف کرنے والا اس کا مستحق نہیں ۔
Flag Counter