Maktaba Wahhabi

170 - 645
ہے۔ لیکن ہم یہاں اس پر تنبیہ کریں گے۔ متکلمین کے نزدیک مشہور دلیل تمانع یہ ہے کہ اگر اس عالم ارضی کے دو صانع ہوتے تو ان میں سے ایک کسی بات کا ارادہ کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت کرتا، مثلاً ایک چاہتا کہ آفتاب مشرق سے طلوع ہو اور دوسرا چاہتا کہ مغرب سے، ظاہر ہے کہ دونوں کا ارادہ پورا نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ یہ جمع بین الضدین ہے، بنا بریں جس کی بات پوری نہ ہو گی، وہ رب نہیں ہو سکتا۔ یا دونوں میں سے کسی ایک کی مراد حاصل ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ تو رب وہ ٹھہرتا جس کی مراد حاصل ہوئی ہے نہ کہ دوسرا۔ اس کی تاکید یہ کہہ کر ہو سکی ہے کہ جب ایک نے ایسی بات کا ارادہ کیا کہ محل دونوں سے خالی نہ ہوتا۔ اسی طرح دونوں خداؤں میں سے ایک جب کسی چیز کو حرکت دینا چاہے اور دوسراا سی چیز کو ساکن کرنا چاہے تو بھی یہی صورت ہوگی۔یا تو دونوں کی مراد پوری ہونا ممتنع ٹھہرے گی۔ جبکہ دونوں کی مراد کا عدم بھی ممتنع ہے۔کیونکہ جسم حرکت اور سکون دونوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا دونوں میں سے ایک کی مراد کا حصول متعین ہو گیا اور وہی رب کہلائے گا۔ اس تقریر پر ایک مشہور سوال ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ: ٭ دونوں خداؤں کے ارادے باہم متحد بھی ہو سکتے ہیں ؟تب کہاں کا اختلاف؟ ٭ متاخرین نے اس سوال کے متعدد جوابات دئیے ہیں جو خود یہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ رکھتے ہیں ۔ اور یہ لوگ قدماء کی تقریر پر مطلع نہیں ہو سکے۔ جیسے اشعری، قاضی ابوبکر، قاضی ابو الحسین بصری اور قاضی ابویعلی وغیرہ۔ کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ارادہ میں دونوں کے اتفاق کا وجوب دونوں کے عجز کو مستلزم ہے۔ جیسے دونوں کا تمانع دونوں کے عجز کو مستلزم ہے۔پھر ان میں سے کسی نے اس تقریر کا ذکر کرنے سے اعراض کیا ہے کیونکہ اس کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ دونوں کا فرض کرنا دونوں کے عجز کا تقاضا کرتا ہے۔اگر کہا جائے کہ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے دوسرے کی مخالفت ممکن نہیں ، تو یہ اس کے عجز میں زیادہ ظاہر ہے ۔ان میں کوئی تو اس کو بیان کرتا ہے، جیسے انھوں نے دونوں میں سے ہر ایک کے استقلال کے امتناع کو بیان کیا ہے۔ اس کے جواب میں یہ بھی کہتے ہیں : دو رب فرض کرنے کی صورت میں یا تو ان میں سے ہر ایک بذات خود قادر ہوگا یا دوسرے کے ساتھ ملے بغیر قدرت سے بہرہ ور نہ ہوگا، بصورت ثانی وہ ممتنع لذاتہٖ ہوگا، نیز اس سے علت و فاعل دونوں میں دور لازم آئے گا۔ اس کی وجہ اس امر کا امکان ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو قادر بنایا ہو۔ یہ بات مسلم ہے کہ دونوں خداؤں میں سے ہر ایک اسی صورت میں فاعل ہوسکتا ہے جب وہ قدرت سے بہرہ ور ہو۔ جب دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو قادر بنایا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک نے دوسرے کو فاعل بھی بنایا یعنی رب ہونے میں اس کی مدد کی، کیونکہ رب کا تو خود قادر ہونا لازم ہے۔ سو یہ ایک اس دوسرے کو فاعل قادر اور رب بنائے گا۔ اسی طرح یہ دوسرا اس پہلے کو؛ ظاہر ہے کہ جب دونوں رب واجب و قدیم تھے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج کیوں کر ہوئے، یہ بداہۃً ممتنع ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک اس وقت تک قادر، رب اور فاعل نہ بنے گا جب تک اسے وہ دوسرا اس قابل نہ بنائے۔
Flag Counter