Maktaba Wahhabi

164 - 645
بیان ہے ہم نے ارشاد نبوی کہ ’’یہ سورت ایک ثلث قرآن کے برابر ہے‘‘[1]کی تفسیر میں مفصل کلام ایک مستقل جلد میں کر دیا ہوا ہے۔رہی عبادت، ارادہ اور عمل میں توحید تو جیسے سورۂ کافرون میں ارشاد ہے: ﴿قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَo لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُo وَلَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْo وَلَا اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا اَعْبُدُo لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِo﴾ (الکافرون) ’’کہہ دے اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘ سو پہلی توحید یہ رب تعالیٰ کے لیے صفات کمال کے اثبات کو متضمن ہے، وہ یوں کہ اس میں رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ کمالیہ کا بیان ہے اور دوسری توحید اخلاصِ دین کو متضمن ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (البینۃ: ۵) ’’اور انھیں صرف یہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں دین کواس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘ اب پہلی توحید میں تعطیل سے براء ت ہے تو دوسری توحید میں شرک سے براء ت ہے اور شرک کی اصل یا تو تعطیل ہے جیسے فرعون کی موسی کے سامنے تعطیل اور جناب ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑنے والے کی ان کے سامنے تعطیل، دجال مسیح ضلالت کی اپنے خصم جناب عیسیٰ بن مریم مسیح ہدایت کے سامنے تعطیل۔ صفات باری میں دوسروں کو شریک قرار دینا، یہ عقیدہ امم و اقوام میں تعطیل کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اور مشرک جمہور انبیاء کرام علیہم السلام کے دشمن رہے ہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالفین میں معطلہ اور مشرکین دونوں فریق پائے جاتے تھے۔ تعطیل ذات کا عقیدہ تعطیل صفات کی نسبت کم رائج ہوا، تعطیل صفات کا نظریہ تعطیل ذات کو مستلزم ہے، تعطیل صفات کے قائل واجب الوجود کو ان صفات سے متصف کرتے ہیں جو ممتنع الوجود کا خاصہ ہیں ۔ یہ امر قابل غور ہے کہ سلف صالحین میں سے جو شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ و تابعین کرام سے جتنا بھی زیادہ قریب تھا، وہ اسی قدر توحید و ایمان اور عقل و عرفان سے قریب تر تھا۔ اور جو شخص ان سے جتنا بھی زیادہ دور تھا وہ اسی قدران اوصاف سے بعید تر تھا۔ بنا بریں متکلمین میں سے جو لوگ متاخر تھے، اور جنہوں نے علم الکلام کو فلسفہ سے گڈ مڈ کر دیا۔
Flag Counter