Maktaba Wahhabi

162 - 645
نہیں ہوتی کہ اس متحرک کی علت علت معشوقہ ہے جو اس کے مشابہ ہے۔ بلکہ یہ جائز ہے کہ متحرک ہی خود محرک ہو۔ یہ بات اپنی جگہ مفصل مذکور ہے۔ جہاں ارسطو کے علم الٰہی کے متعلق عقیدہ کے بطلان کو کئی طرح سے واضح کیا گیا ہے؛ اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ فلاسفہ ذات باری کے متعلق جاہل مطلق ہیں ۔ اور انہیں اﷲ کی ہستی کا کچھ علم نہیں ۔ فلاسفہ میں سے کچھ لوگ بعض مذاہب کی طرف منسوب ہیں ؛ جیسے کہ کچھ اسلام کی طرف نسبت رکھتے ہیں ؛ مثلاً فارابی، ابن سینا، موسیٰ بن میمون؛اوردیگر یہودی ملحدین اورمتی بن یحییٰ بن عدی اور ان جیسے عیسائی ملحدین۔ یہ ملاحدہ اہل ملل میں سے ہونے کے باوجود الحادو دہریت کے ساتھ ساتھ فہم و فراست سے بیگانہ اور ارسطو کے اتباع سے بھی گئے گزرے ہیں ۔۔ اگرچہ ان لوگوں نے امور طبعیہ و ریاضیہ میں متعدد امور میں ان ملاحظہ سے سبقت کی ہے۔ غرض یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ لوگ امور الٰہی سے ازحد جاہل اور بے حد گمراہ ہیں کہ ان لوگوں کو اہل ملل کے نور، عقل اور ہدایت سے ایک قسم مل گئی۔ یوں یہ لوگ ان ارسطو وغیرہ سے کم گمراہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن سینا نے علت اولیٰ کے اثبات میں اپنے اسلاف کے طریق سے عدول کر کے معروف طریق کو اختیار کیا جو وجود کی واجب اور ممکن میں تقسیم کا طریق ہے اور یہ کہ ممکن واجب کو مستلزم ہے۔ اس کا اور اس کے متبعین کا یہی طریقہ معروف ہے؛جیسے سہروردی مقتول اور دیگر فلاسفہ ؛ اور ابوحامد، اوررازی، اور آمدی اور دیگر متاخرین اہل کلام کایہی طریقہ ہے۔ جنھوں نے فلسفہ اور کلام کو خلط ملط کر دیا تھا۔ جن نے فلسفہ اور کلام کو خلط ملط کر دیا تھایہ لوگ شدید اضطراب، شکوک اور حیرت میں مبتلا رہے اور جوں جوں ان کا فلسفہ اور کلام میں خلط ملط بڑھتا گیا ان کی ظلمت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جبکہ اہل ملت کے کلام میں داخل ہونے کی بنا پر ان کی ظلمت کم ہوتی گئی جب کہ ان لوگوں کے فلسفیوں کے کلام میں گھستے چلے جانے کی وجہ سے ان کی ظلمت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان اہل ملل کے متکلمین میں بھی متعدد اشیاء میں شک و اضطراب ہے اور متعدد مواقع میں حق سے خروج بھی پایا جاتا ہے جبکہ متعدد مواقع میں ہوائے نفس کی اتباع اور حق میں کوتاہی پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے علمائے ملت اور ائمہ دین نے ان کی مذمت بیان کی ہے ؛کیونکہ وہ ان دلائل عقلیہ کی معروفت میں کوتاہ اندیشی سے کام لیا ہے جن کو اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اور ان بدعتی طرق کی طرف چلے گئے جن میں باطل ہے اور اس کی وجہ سے بعض اس حق سے نکل گئے جو ان میں اور دوسروں میں مشترک تھا۔ لطف یہ ہے کہ بعض متکلمین ان کے زمرہ میں شامل ہو کر توحید باری اور اسماء و صفات الٰہی کے اثبات جیسے اسلامی عقائد کو چھوڑ بیٹھے ۔یہ لوگ صرف توحید ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں ، توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ ہر چیز کا خالق و رب ہے ظاہر ہے کہ مشرکین بھی اس توحید کے قائل تھے، اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ﴾ (لقمان: ۲۵)
Flag Counter