Maktaba Wahhabi

111 - 645
’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘ تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نہ تو اسے کفر و مفاد محبوب ہے، نہ اس نے ان کو چاہا ہے اور نہ ان کا ارادہ کیا ہے، اس سے کہ جس سے یہ پائے نہیں گئے یا یہ معنی ہے کہ اسے بطور دین کے کفر و فساد محبوب نہیں اور نہ اس نے ان کو اس اعتبار سے چاہا اور نہ ان کا ارادہ کیا۔ بایں معنی کہ وہ کفر و فساد والے کو ثواب نہیں دینا چاہتا۔ رہا واقع ہونے والا کفر، فسق اور عصیان تو ان کے نزدیک اسے وہ محبوب اور پسند ہے جیسا کہ اس نے ان کو چاہا ہے البتہ اسے کفر و عصیان والے کو ثواب نہیں دینا محبوب نہیں جیسا کہ اس نے کفر و عصیان والے کو ثواب دینا نہیں چاہا۔ ان کے نزدیک رب تعالیٰ کا کسی قوم کو تعذیب یا کسی کو انعام دینا کسی حکمت و سبب کے نہیں اور نہ بعض مخلوقات کے وہ قویٰ و طبائع ہیں جن کے ذریعے وہ حادث ہوا ہے اور نہ وہ کسی حکمت کی بنا پر حادث ہی ہوا ہے اور نہ اس کا امر و نہی کسی معنی کے لیے ہے اور نہ اس نے نبیوں اور فرشتوں کو ان میں پائے جانے والے کسی معنی کی وجہ سے ہی چنا ہے۔ نہ اس نے کسی معنی کی بنا پر طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے۔ جو معنی کہ حلال کو طیب اور حرام کو خبیث ٹھہراتا ہے اور نہ اس نے لوگوں کے اموال کی حفاظت کی خاطر چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے اور نہ اس نے حد سے اعتداء کرنے والے ڈاکوؤں کو اس لیے سزا دینے کا حکم دیا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم سے بچایا جائے اور نہ بارش اس لیے برسائی ہے کہ حیوانات پانی پئیں اور نباتات پانی سینچیں ۔ ان دونوں اقوال میں وہ تناقض ہے جو حد شمار سے باہر ہے۔ لیکن اس امامی نے جب اہل سنت کے اقوال کا مطلق تناقض ذکر کیا تو اس پر یہ واضح ہوا کہ جملہ قدریہ اپنے مقابل مجبرہ پر حجت قائم کرنے سے عاجز ہیں ، جیسا کہ روافض اپنے مقابل خوارج و تواصب پر اقامت حجت سے قاصر ہیں چہ جائیکہ کتاب و سنت کے متبعین، اہل استقامت و اعتدال پر حجت قائم کر سکیں ۔ اسی لیے ہم نے اس ان گنت فساد و تناقض کے بعض پہلوؤں پر تنبیہ کی ہے۔ ان اشعریہ وغیرہ اہل اثبات نے اپنے اصول میں ان کے تناقض کے بیان کو مشروع کیا اور ان کے اقوال کے تناقض کا استیعاب کیا۔ اشعری کی جبائی کے ساتھ تین بھائیوں کے بارے میں حکایت مشہور ہے کہ وہ رب تعالیٰ پر اس بات کو واجب ٹھہراتے تھے کہ وہ ہر بندے کے ساتھ وہی کرے جو اس کے دین کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ وہی دنیا تو بغدادی معتزلہ اس کو بھی واجب کرتے ہیں ۔ البتہ بصری معتزلہ اسے واجب نہیں کرتے۔ چنانچہ اشعری نے جبائی سے کہا: فرض کرو کہ اللہ نے تین بھائی پیدا کیے۔ ان میں سے ایک تو نابالغی کی عمر میں ہی فوت ہو گیا۔ جبکہ دوسرے دو بلوغت کو پہنچ گئے۔ پھر ان میں سے ایک کافر بن گیا اور دوسرا ایمان لے آیا، سو کافر دوزخ میں اور مومن جنت میں جا پہنچا۔ لیکن اللہ نے اس بالغ بھائی کا درجہ نابالغ جنتی بھائی سے بلند کیا۔ تب اس نابالغ نے کہا: اے میرے رب! میرا درجہ بھی میرے بھائی جتنا کر دے ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: تم اس جیسے نہیں ہو، اس نے تو ایمان لا کر
Flag Counter