Maktaba Wahhabi

108 - 645
حادث نہ کرے۔ جیسا کہ دیگر وہ تمام امور جن کو اس نے حادث نہیں کیا اور کبھی اس کے راحداث میں اس مامور کے علاوہ کے لیے ایک عظیم مفسدہ ہوتا ہے جو حاصل ہونے والی حکمت سے بھی بڑا ہوتا ہے اور کبھی اس فعل مامور میں مصلحت حاصلہ سے بھی بڑی مصلحت کی تفویت ہوتی ہے اور حکم وہ ہوتا ہے جو دو میں سے بڑی مصلحت کو کو مقدم کرتا ہے اور دو میں سے بڑے مفسدہ کو دفع کرتا ہے۔ اللہ کی حکمتوں کی تفصیل جاننا یہ مخلوق کے ذمے نہیں ۔ بلکہ ان کے حق میں علم عام اور ایمان تام ہی کافی ہے۔ اب جس نے ارادہ کو ایک نوع قرار دیا ہے، اگرچہ اس کا قول مرجوح ہے، پر وہ ان قدرِ کے قول سے بہتر ہے جو ارادہ، محبت اور مشیئت سب کو ایک شی قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ہو سکتا ہے جو اس نے نہیں چاہا اور جو چاہتا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ کیونکہ اس کا قول ہے کہ سفہ اس پر جائز ہے جس پر اعتراض جائز نہ ہوں اور اعتراض غیر کی طرف حاجت کو اور حاجت کے بغیر نقض کو مستلزم ہوتی ہیں اور یہ اللہ پر ممتنع ہے اور اللہ کے حق میں یہ تسلسل اور اس کے ساتھ حوادث کے قیام کو مستلزم ہے اور اس خصم کے نزدیک یہ ممتنع ہے۔ سو جب معتزلہ اور ان کے ہم نوا شیعہ نے ان اصول کو تسلیم کر لیا تو ان کی دلیل منقطع ہو گئی۔ وہ یوں کہ جب انہوں نے یہ قول کیا کہ وہ کسی غرض سے فعل کرتا ہے۔ تو انہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ اللہ کی طرف غرض کے وجود اور اس کے عدم کی نسبت برابر ہے۔ یا غرض کا وجود اس کے زیادہ سزا وار ہے۔ پھر اگر تو یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں پہلو یکساں ہیں تو اس کے ساتھ یہ بات ممتنع ٹھہری کہ وہ ایسا فعل کرے جس کے عدم اور وجود کی اس کی طرف نسبت یکساں ہو اور یہ ہم میں سفیہ گنا جائے گا اور یہ ہم میں عبث ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اس نے بندوں کے نفع کے لیے کیا ہے۔ تو یہ جواب دیا جائے گا کہ ایک انسان بھی اپنی دینی یا دنیاوی مصلحت کے لیے دوسرے کے نفع کا کوئی کام کر دیتا ہے۔ رہا دوسرے پر احسان کر کے لذت اندوز ہونا جیسے کہ نفوسِ کریمہ دوسروں پر احسان کر کے لطف اندوز اور خوش ہوتے ہیں اور یہ ان نفوس کی مصلحت و منفعت ہے۔ رہا نفس سے رقت کے الم کو دور کرنا۔ تو جب ایک آدمی دوسرے کو بھوک کی کلفت میں دیکھتا ہے تو اسے کھانا دے دیتا ہے جس سے اس کی کلفت جاتی رہتی ہے اور زوالِ کلفت بھی ایک منفعت و مصلحت ہے۔ اس کے علاوہ باتوں کو تو جانے دیجیے جیسے تعریف کی امید، یا بدلہ کی امید یا اللہ سے اجر کی امید کہ یہ علیحدہ مطالب و مقاصد ہیں ۔ لیکن نفس فاعل میں یہ دونوں امر موجود ہیں ۔ سو جس نے دوسرے کو نفع دیا اور نفع کا عدم و وجود اس کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہمہ پہلو یکساں ہو تو یہ بے وقوف ترین ہو گا اگر پایا جائے۔ تو جب یہ ممتنع ہو گا تو پھر؟....کیونکہ یہ بات ممتنع ہے کہ ایک مختار کو کام کرے یہاں تک کہ وہ اس کے نزدیک راجح نہ ہو جائے۔ تب پھر اس کے نزدیک اس کا کرنا اس کے نہ کرنے سے زیادہ محبوب ہو گا اور احب کی ترجیح بھی ایک لذت اور منفعت ہے۔ اب یہ قدریہ جو غرض کی تعلیل کے قائل ہیں ، یہ اس شی کو ذکر کرتے ہیں جس کا غرض ہونا ممتنع ہوتا ہے۔ وہ یا تو ممتنع
Flag Counter