Maktaba Wahhabi

107 - 645
سے روکے جو وہ چاہتا ہے، اسے سفاہت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ تو اسے جواب دیا جائے گا کہ جب وہ خود غیر کو ایسی بات کا حکم دیتا ہے جو وہ نہیں چاہتا تو کیا ایسا کر کے وہ بھی سفیہ بنتا ہے یا نہیں ؟ حالانکہ اس صورت میں امر کرنے والے اور اس امر پر اعانت نہ کرنے والے کا غیر سفیہ ہونا سب عقلاء کے نزدیک مسلم ہے۔ بلکہ حکماء و عقلاء کے سب او امر اسی باب سے ہیں ۔ اگر ایک طبیب ایک دوا تجویز کرتا ہے تو اس کے ذمہ نہیں کہ وہ دوا پینے پر بھی اس کی معاونت کرے۔ اسی طرح فتویٰ دینے والے مفتی پر مفتیٰ بہ پر معاونت اور نکاح تجارت وغیرہ کا مشورہ دینے والے پر مشورہ میں اعانت لازمی نہیں ۔ لہٰذا دوسرے کو محبوب شی کا امر دینے کے بعد کسی مفسدہ کی بنا پر اس میں معاونت نہ کرنا سفاہت نہیں ۔ پس قدریہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی دلیل کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ اسی طرح جو غیر کو اس بات سے روکتا ہے جس کی بابت اس کا ارادہ ہے کہ وہ اسے کرے کہ ایسا کرنے والا سفیہ نہیں ۔ کیونکہ بسا اوقات اس میں روکنے والے کی مصلحت ہوتی ہے۔ لہٰذا مسہلات پینے والا مریض اگر اپنے بچے کو ان کے پینے سے روکے تو سفیہ نہ ٹھہرے گا اور تیرنے والا اگر اناڑی کو تیرنے سے روکے تو سفیہ نہ ہو گا۔ غرض اس کی مثالیں بے شمار ہیں ۔ اگر روکنے والا کسی کو اس کی خیر خواہی کے لیے کسی مضر شی سے روکے اور خود ناہی کی مصلحت اس کے کرنے میں ہو تو وہ اس فعل پر محمود ٹھہرے گا جیسا کہ بہت سارے لوگ کئی کاموں سے روکتے ہیں بسا اوقات انہی کی مصلحت کے لیے اس فعل کو طلب کرتے ہیں ۔ البتہ مخلوق میں ایسی کوئی مثال ممکن نہیں جو ہر اعتبار سے رب تعالیٰ کے فعل کے مطابق ہو۔ کیونکہ اس جیسی کوئی شی نہیں نہ ذات ہیں ، نہ صفات اور نہ افعال میں ۔ غرض مقصود یہ ہے کہ مخلوق میں یہ ممکن ہے کہ انسان ایک بات کا امر کرے پر اس پر اعانت کا ارادہ نہ ہو اور روکنے والے یسی بات سے روکے کہ خود اس کے کرنے میں اس کی مصلحت میں ۔ تو معلوم ہوا کہ اس قدری وغیرہ نے لفظ مجمل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ لہٰذا جب انہوں نے یہ کہا کہ جس نے ایسی بات کا امر دیا جو وہ چاہتا نہیں تو وہ سفیہ ہے، تو انہوں نے لوگوں کو اس بات کا وہم ڈالا کہ اللہ نے اس بات کا امر دیا جس کی بابت اس نے یہ ارادہ نہیں کیا کہ بندہ وہ کام کرے اور اللہ نے بندے کو ایسا حکم نہیں دیا کہ جس کے نہ کرنے پر وہ راضی ہو اور اس کے کرنے پر راضی نہ ہو۔ اللہ نے اس معنی میں ان سے فعل کے کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اس نے بعض کو ایسی بات کا حکم دیا ہے کہ اس نے اس بات کا ارادہ نہیں کیا کہ وہ اپنی مشیئت سے اسے پیدا کرے اور اس نے بندوں کو ان کا فاعل نہیں بنایا اور یہ بات معلوم ہے کہ آمر کے ذمہ نہیں کہ وہ فعل مامور بہ پر مامور کی مدد کرے۔ بلکہ قدریہ کے نزدیک یہ ممتنع ہے اور دوسروں کے نزدیک وہ اس پر قادر ہے لیکن اس کو اس بات کا اختیار ہے کہ چاہے تو کرے اور چاہے نہ کرے۔ اب جو تو مشیئت کو حکمت غائیہ کے بغیر ثابت کرتا ہے اس کا قول ہے کہ: یہ دیگر ممکنات کی طرح ہے، چاہے تو چاہے اور چاہے تو نہ کرے اور جو حکمت کو ثابت کرتا ہے، اس کا قول ہے کہ اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس کو حکمت کی بنا پر
Flag Counter