Maktaba Wahhabi

381 - 406
نیا اور کامل دین آسان ہو گیا جس میں کتاب وسنت سے وہی بات موجود ہو، جو ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ کہتے ہیں :’’ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایسے ہی ابو بکر وعمر اور عمر وبن العاص رضی اللہ عنہم کے فضائل بھی روایت کرتا ہے۔ جواب: ....ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فتنہ کے دور میں جانبین میں سے کسی ایک کے ساتھ نہیں تھے۔ بلکہ آپ فتنہ سے علیحدہ رہنے والوں کے ساتھ تھے۔ آپ نے کسی سے قتال نہیں کیا اور آپ نے فتنہ سے اعتزال کے متعلق احادیث روایت کی ہیں مثلا بخاری کی یہ روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عنقریب فتنے ہوں گے، پس ان میں سونے والا بیدار رہنے والے سے بہتر ہوگا اور بیدار کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا پس جس آدمی کو کوئی پناہ کی جگہ یا حفاظت کی جگہ مل جائے تو اسے چاہئے کہ وہ پناہ حاصل کرے۔‘‘[1] اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی رائے یہی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خالی دست نہ تھے، اور نہ ہی مدینہ کی ولایت کوئی پہلی بار تھی۔ بلکہ آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحرین کا گورنر بنایا تھا اور آپ کے پاس کافی مال تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں : ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بحرین کا گورنر بنایا، آپ وہاں سے دس ہزار لائے۔ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے دشمن، اور اللہ کی کتاب کے دشمن! یہ مال تم نے اپنے لیے خاص کر رکھا ہے؟ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بولے! میں نہ ہی اللہ کا دشمن ہوں او رنہ ہی اس کی کتاب کا، بلکہ میں ان دونوں کے علاوہ کا دشمن ہوں ۔ آپ سے پوچھا گیا: یہ مال آپ کے پاس کہاں سے آیا؟ تو فرمایا: یہ میرے گھوڑوں کی افزائش نسل ہوئی، اور غلاموں کی کمائی ہے، یہی بڑھتے رہے ہیں ۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ آپ کی بات درست تھی۔ پھر اس کے بعد دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو والی مقرر کرنا چاہا تو آپ نے انکار کر دیا۔‘‘[2] بنو امیہ کے آپ کو مدینہ کا گورنر بنانے کا سبب یہ تھا کہ آپ مدینہ میں باقی رہ جانے والے کبار صحابہ اور نمایاں شخصیات میں سے تھے۔ خصوصاًجب یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں نمازیں بھی آپ ہی پڑھایا کرتے تھے اور اگر بنوامیہ کے علاوہ کوئی دوسرا بھی آتا تو یہ بات یقینی تھی کہ وہ آپ کو ہی گورنر بناتا۔ اس لیے کہ آپ اس کام کے لیے نامزد تھے اور یہ ایسے ہوتا بھی کیوں نہیں کہ ان سے بہتر ہستی کوئی نہیں تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے آپ کو منتخب کر چکے تھے۔
Flag Counter