Maktaba Wahhabi

322 - 406
پوری نہیں ہوئی تھی۔ تو کیا اس کا شمار بھی مشاہیر صحابہ میں ہوگا، جیسا کہ ان معترضین کا خیال ہے؟[1] جہاں تک حضرات طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے، تو صحیح اور ثابت شدہ روایات واضح کرتی ہیں کہ انہوں نے قتل عثمان پر انتہائی درجہ کا دکھ وکرب محسوس کیا، بلکہ ان حضرات نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابو حبیبہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ’’ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، اس وقت آپ محصور تھے۔ میں ایک سخت گرم دن میں آپ کے پاس پہنچا، آپ اپنی کرسی پر تشریف فرماتھے اور ان کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ ان کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ میں نے عرض کیا: مجھے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ آپ کو سلام دے رہے ہیں ، اور کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کی اطاعت پر قائم ہوں ، بدلا نہیں ہوں اور نہ ہی عہد توڑا ہے، اگرآپ چاہیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اس دارمیں داخل ہو جاؤں اور باقی قوم کا ایک فرد بن کر رہوں اور اگر چاہیں تو آپ کی حفاظت کے لیے کھڑا ہو جاؤں ۔بے شک بنی عمر و بن عوف نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میرے دروازہ پر رہیں گے اور پھر وہ ایسے ہی کریں گے جیسے میں انھیں حکم دوں گا۔‘‘ جب آپ نے یہ پیغام سنا تو فرمایا: اللہ اکبر، الحمدللہ کہ اللہ نے میرے بھائی کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ انہیں میرا سلام پہنچائیں اور ان سے کہیں کہ دار امارت میں داخل نہ ہوں اور اگر ایسا کریں گے تو وہ بھی باقی قوم کی طرح ایک فرد ہوں گے اور تمہارا موجودہ ٹھکانہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، شاید کہ اللہ آپ کے ذریعہ مجھ سے یہ مصیبت دور کر دے۔‘‘ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ پیغام سنا تو کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: کیا میں آپ کو اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے ان دوکانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ کہنے لگے: ضرور۔ تو آپ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’ میرے بعد فتنے اور عجیب قسم کے امور ظہور پذیر ہوں گے۔‘‘ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان سے نجات کہاں ملے گی؟
Flag Counter