Maktaba Wahhabi

321 - 406
تحریر نہیں کیا۔‘‘ امام اعمش کہتے ہیں :’’ اور ان کی رائے یہ تھی کہ آپ کی زبان پر خطوط تحریر کیا کرتے تھے۔‘‘ [1] امام احمد ’’الفضائل‘‘ میں یہ حدیث لائے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقتل کے بارے میں فرمایاکرتی تھیں کہ کاش میں نسیاً منسیاً ہو گئی ہوتی اور جو کچھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا، اللہ کی قسم! میں نے کبھی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں کوئی ایسی بات نہیں سوچی۔مجھے یہ بات اس سے بڑھ کر محبوب تھی کہ آپ کی جگہ اگر میں قتل ہوگئی ہوتی۔‘‘[2] ابن شبہ نے طلق بن حشان سے روایت کہا ہے، وہ کہتے ہیں :’’میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا: حضرت عثمان کیسے قتل ہوئے؟ آپ نے فرمایا: مظلوم قتل ہوئے، اللہ تعالیٰ آپ کے قاتلوں پر لعنت کرے۔‘‘[3] امام احمد رحمہ اللہ نے سالم بن جعد سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ہم ابن حنفیہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں تھے، ہم نے ایک آدمی کو سناوہ گستاخی کر رہا تھا، اور وہاں پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ اس نے کہا: اے ابن عباس! آپ نے یہ سنا ہے کہ ایک رات دوسرے لشکر کی طرف سے ایک شور کی آواز حضرت امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے سنی۔ آپ نے فلاں بن فلاں کو پتہ کرنے کیلئے بھیجا کہ جاؤ دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ وہ واپس آیا اور کہا: یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین پر لعنت کر رہی ہیں ، اور لوگ اس پر آمین کہہ رہے ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میں بھی پہاڑوں اور وادیوں میں قاتلین عثمان پر لعنت کرتا ہوں ۔ اے اللہ! قاتلین عثمان پر لعنت کر اے اللہ! پہاڑوں اور وادیوں میں قاتلین عثمان پر لعنت کر۔‘‘ پھر ابن حنیفہ اس آدمی کی طرف اور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا مجھ میں اور ابن عباس میں عاد لانہ گواہی نہیں دیکھ رہے ہو؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ، تو انھوں نے فرمایا:’’ پھر معاملہ ایسے ہی تھا۔‘‘[4] تمام مؤرخین جانتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کرتے ہوئے نکلی تھیں ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ یہ بھی اعلان کریں کہ بڈھے بجو کوقتل کر دو۔ کیونکہ یہ کافر ہو گیا ہے ۔ جہاں تک محمد بن ابی بکر کا تعلق ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب انتقال ہوا تو اس وقت اس کی عمر چار ماہ بھی
Flag Counter