Maktaba Wahhabi

301 - 406
’’مائیں اب معاذ جیسے آدمی کو جنم دینے سے عاجز آگئی ہیں ۔ اگر معاذ نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتا۔‘‘ [1] پھر اس کے بعد ابن ابی شیبہ نے کہا ہے، ہم سے خالد الاحمر نے حدیث بیان کی وہ حجاج سے، وہ قاسم سے، وہ اپنے والد، اور اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔ [ المصدر السابق) اس کی سند میں حجاج بن أرطاۃ ضعیف ہے، کثرت کے ساتھ تدلیس کرتا ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ حجاج بن ارطاہ سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ پس یہ روایت ضعیف ہے۔ اس میں کوئی حجت نہیں ہے اور وہ روایت جس کا ذکر محب الطبری نے کیا ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی عورت کو رجم کرنے کا ارادہ کیا، جس نے چھ ماہ میں بچے کو جنم دیا تھا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ﴾ [الاحقاف: ۱۵] ’’دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾ [لقمان: ۱۴] ’’دودھ چھڑانا دو سال میں ہے ۔‘‘ پس حمل کی مدت چھ ماہ ٹھہری اور دوسال پورے دودھ پلانا ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو رجم کرنے کا ارادہ ترک کر دیا، اور فرمایا! ’’لولا علیٌّ لہلک عمر۔‘‘ یہ روایت عقیلی نے تخریج کی ہے، اور ابن سمان ابو حزم بن ابو اسود سے روایت کی ہے۔‘‘[2] میں کہتا ہوں :ان کا اس راوی کا نام ابو حزم بتانا خطاہے۔ درست یہ ہے کہ اس کا نام ابو الحرب ابن ابی الاسود ہے۔ اس روایت کی سند میں عثمان بن مطرالشیبانی ہے۔ اس کے متعلق یحییٰ بن معین کہتے ہیں :’’یہ اتنا ضعیف ہے کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ یہ کسی قابل ہی نہیں ۔‘‘ علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ عثمان بن مطر بہت سخت ضعیف ہے۔‘‘ ابو زرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ حدیث میں بہت کمزور ہے ، منکر الحدیث ہے۔‘‘ ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ ضعیف الحدیث ہے۔ منکر الحدیث ہے۔
Flag Counter