Maktaba Wahhabi

300 - 406
رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:’’آپ نے ان لوگوں کو کیوں واپس کیا ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’حکم اٹھا لیا گیا ہے، سوئے ہوئے سے، حتی کہ وہ بیدار ہوجائے اورچھوٹے بچے سے حتی کہ وہ بالغ ہو جائے ، اور پاگل سے حتی کہ وہ ہوش میں آجائے۔‘‘ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں ، ضرور سنا ہے۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ فلاں قبیلہ کی مجنون عورت ہے، شاید اس کے ساتھ کوئی اس حالت میں یہ کام کر گیا جب اس کو ہوش ہی نہ ہو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ مجھے اس بات کا علم نہیں ۔‘‘ تو فرمایا: ’’ اگرعلم نہیں تو اس کو رجم مت کرو۔‘‘[1] یہ قصہ جہاں کہیں بھی ذکر کیا گیا ہے، اس کو ہم نے تلاش کیا، مگر یہ الفاظ کہیں بھی نہیں ملے: ’’لو لا علّیٌ لہلک عمر‘‘ یہ الفاظ خود پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نہیں نکلے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اس عورت کے پاگل پن کا علم نہیں تھا۔ اسی لیے آپ نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ درایں صورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ معذور تھے۔ اس لیے کہ ایک عورت کا معاملہ آپ پر مخفی رہا، اس میں آپ کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ تو پھر آپ کیونکہ کہہ سکتے تھے کہ ’’لولا علّیٌ لہلک عمر‘‘ اور عمر رضی اللہ عنہ کیونکہ ہلاک ہوتا؟ بالفرض اگر آپ نے بطور تو اضع ایسا کہہ بھی دیا ہو، تو اس سے آپ پہ کوئی مذمت لازم نہیں آتی۔ جہاں تک دوسری روایت کا تعلق ہے کہ آپ ایک حامل عورت کو رجم کرنا چاہتے تھے۔ یہ روایت ہم نے تلاش کی تو یہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ملی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ابو سفیان سے، اور اس نے اپنے مشایخ سے روایت کی ہے، کہ ایک عورت کا شوہر اس سے غائب ہوگیا۔ وہ کچھ دنوں کے بعد واپس آیا تو وہ حمل سے تھی۔ اس نے معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیش کیا تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ تو حضرت معاذ نے کہا: اگر تمہیں اس کو رجم کرنے کی اجازت ہے، مگر اس کے پیٹ میں موجوبچے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے بچے کی پیدائش تک کے لیے قید کر دو۔ پھر اس عورت نے دو دانت والے بچے کو جنم دیا، جب اس آدمی نے لڑکا دیکھا تو پکار اٹھا کہ یہ تو میرا ہی بیٹا ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :
Flag Counter