Maktaba Wahhabi

29 - 406
فرماتے ہیں : ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کی ایک جماعت جہاد کرے گی۔ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاہو؟ وہ کہیں گے: ہاں ۔ تو انہیں فتح دے دی جائے گی۔ پھر لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی۔ ان سے پوچھا جائے گا: تم میں سے کوئی ہے جس نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہاں ۔ پھر انہیں بھی فتح دے دی جائے گی۔ پھر ایک زمانہ میں لوگ جہاد کریں گے۔ ان سے پوچھاجائے گا : تم میں کوئی ایسا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھیوں کو دیکھ چکا ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہاں ۔ پھر انہیں بھی فتح دے دی جائے گی۔‘‘ [1] اس دوسرے سوال پر غور کیجیے۔ اس میں صرف دیکھنے والے کو ساتھی یا صاحب کہا گیاہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ صرف دیکھ لینے سے بھی شرف صحبت حاصل ہوجاتاہے۔ [2] اس کی ایک دوسری دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری یہ خواہش تھی کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا؟ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’تم میرے صحابہ ہو؛ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔‘‘ [3] حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: [آپ نے فرمایا:]’’تم تو میرے صحابہ ہو ۔ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائیں گے اور انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہوگا۔‘‘ [4] یہ احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور آپ کے ان بھائیوں کے درمیان ؛ جنہیں آپ دیکھنا چاہتے تھے؛ فرق شرف ملاقات اور آپ کے دیدار کا ہے۔ پس جس کسی نے ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیدار سے مشرف ہوا، اس کا شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوگا۔‘‘[5]
Flag Counter