Maktaba Wahhabi

195 - 406
سکتی ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی مراد بھی یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسا نیک فرزند عطا کر دیں جو کہ آپ کے بعد نبوت کے پرچم کو بلند رکھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی خاندانی عزت و حرمت اور تقدس کا وارث بنے۔ نبوت کا بیڑا اٹھائے۔ دوم:.... حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ تنگ دست تھے اور بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ تو آپ کے پاس کون سا مال تھا جس کے لیے آپ اللہ تعالیٰ سے وارث مانگتے۔ بلکہ اللہ کے انبیاء کے بارے میں اصل یہ ہے کہ وہ مال جمع ہی نہیں کرتے، صرف اپنی ضرورت کے قدر مال لیتے ہیں اور باقی صدقہ کر دیتے ہیں ۔ (نیکی کے کاموں میں لگا دیتے ہیں )۔ سوم:.... لفظ ’’وارث‘‘ یا وراثت کا استعمال صرف مال کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ لفظ علم اور نبوت کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ﴾[فاطر: ۳۲] ’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے ۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿ أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ () الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ [المومنون: ۱۰۔۱۱] ’’ یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں ۔جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘ پہلی آیت میں مال کے وراثت ہونے پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ چہارم:.... حدیث میں آتا ہے: ’’بے شک انبیاء وراثت میں دینار اور درہم نہیں چھوڑتے بلکہ اپنی وراثت میں علم چھوڑتے ہیں ۔‘‘ جیسا کہ ابھی ہم نے حدیث بیان کی ہے، جس میں انبیاء کے مال کی وراثت کے جواز کی صریح اور واضح نفی کی گئی ہے۔ بس اتنا بتانا کافی ہے۔ یہی حال اس آیت کا بھی ہے ﴿ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ﴾ [ النمل: ۱۶] ’’اور سلیمان کو داؤد کا وارث بنایا‘‘ بے شک حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت داؤد سے وراثت میں کوئی مال نہیں پایا تھا، بلکہ علم و نبوت اور حکمت وراثت میں پائی تھی۔ اس کی دو وجوہات ہیں :
Flag Counter