Maktaba Wahhabi

194 - 406
﴿ يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾[النساء: ۱۱] ’’اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے۔‘‘ یہ صحیح حدیث ’’ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے۔‘‘ صحیح سند کے ساتھ شیعہ اوراہل سنت دونوں کے ہاں ثابت ہے۔ کلینی نے الکافی میں ابوعبداللہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔انبیا کوئی دینار اوردرہم ورثہ میں نہیں چھوڑتے بلکہ وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں ، جس نے علم میں سے کچھ حاصل کر لیا، اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کر لیا۔‘‘[1] اور مجلسی نے اس بارے میں کہا ہے: ’’یہ حدیث حسن اور موثوق ہے، جو کہ کسی بھی طرح صحیح سے کم نہیں ۔‘‘[2] خمینی نے اپنی کتاب ’’الحکومت الاسلامیۃ‘‘ میں اس سے استشہاد پیش کیا ہے اور کہا ہے: ’’اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔‘‘[ص: ۹۳] ٭ ان کا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کرنا جو کہ حضرت زکریا علیہ السلام سے متعلق ہے کہ آپ نے دعا کی تھی: ﴿ فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا﴾ [مریم: ۵۔۶] ’’سو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے پسند کیا ہوا بنا۔‘‘ اس سے انبیاء علیہم السلام کی وراثت کے جواز پر استدلال کرنا، یہ ایک غریب استدلال ہے اس کی کئی وجوہات ہیں : اولاً:.... کسی نیک انسان کے شایان شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے بیٹے کی دعا کریں جو اس کے مال کا وارث بنے۔ تو پھر حضرت زکریا علیہ السلام جیسے نبی کی طرف ایسی بات کیونکر منسوب کی جا سکتی ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ سے ایسا بیٹا مانگیں جو آپ کے مال کا وارث بنے۔ صالحین اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کا سوال کرتے ہیں جس سے انہیں فائدہ پہنچے، وہ اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد کا سوال کرتے ہیں ۔ جس کے نفع کی بروز قیامت امید کی جا
Flag Counter