Maktaba Wahhabi

19 - 406
’’ خبردار اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ؛ بیشک بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۔‘‘[1] بے ثباتی اور بلاتحقیق بات کا پہلا برا نتیجہ بدگمانی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ہمیشہ سے برے عقائد کی بنیاد بد گمانیوں پر ہی رکھی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد وہ ظلم ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے [خود اپنی ذات پر بھی حرام کیا ہے، اور اسے ] اپنے بندوں کے مابین بھی حرام ٹھہرایا ہے، وہ اس کے گناہ کے لیے کافی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ آپ کو یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی دوسرے کے متعلق بد گمانی رکھیں ، ہاں جب آپ خود اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا عیب دیکھ لیں جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو۔‘‘ مزید برآں آپ فرماتے ہیں : ’’ یہ بات اچھی طرح سے جان لیجیے کہ بد گمانی رکھنا حرام ہے۔ ویسے ہی جیسا کہ بری بات کہناحرام ہے۔ بدگمانی اسی صورت میں مباح ہوسکتی ہے جس صورت میں کسی کا مال مباح ہوجائے، اوروہ صورت یہ ہے کہ یا تو انسان خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلے یا پھر دو عادل آدمی گواہی دے لیں ۔‘‘[2] اور حدیث شریف میں آتا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون اور اس کی عزت کو حرام ٹھہرایا ہے، اور یہ کہ اس سے بدگمانی رکھی جائے۔‘‘ [3] علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’آپ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق برا گمان رکھو۔ہاں اس کی صرف یہ ایک صورت ہے کہ جب معاملہ اس طرح سے واضح ہوجائے کہ اس میں تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہ ہو۔اور اگر آپ کے ہاں دو سچے گواہ اس کی گواہی دیدیں تو پھر اپنے دل کو اس کی تصدیق کی طرف مائل کرلیں ۔اس لیے کہ اب آپ معذور ہیں ۔کیونکہ اگر اب آپ اس کی بات جھٹلائیں گے تو یہ خبر دینے والے کے متعلق بد گمانی ہوگی اور یہ بھی مناسب نہیں کہ ایک کے متعلق اچھے گمان کے چکر میں دوسرے سے بد گمانی رکھیں ۔ بلکہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھیں کہ ان کے مابین کوئی حسد اور عداوت تو نہیں ۔ تو اس صورت میں تہمت کو اس سبب پر محمول کیا جائے گا۔‘‘[4]
Flag Counter