Maktaba Wahhabi

170 - 406
کر گئی۔ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھیں اس معاملہ کی خبر دی۔ تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ طلحہ رضی اللہ عنہ جنت میں داخل ہوں ، مگر اس صورت میں کہ میری بیعت ان کی گردن میں ہو۔‘‘[1] جہاں تک حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دے کر بلایا اور تنہائی میں ان سے گفتگو کی اور انہیں یہ حدیث یاد دلائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ تم ضرور علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرو گے اور تم اس پر ظلم کرنے والے ہو گے۔‘‘ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے مجھے ایسی چیز یاد دلا دی، جو زمانے نے مجھے بھلا دی تھی۔ کوئی پرواہ نہیں ، اب میں آپ سے کبھی بھی نہیں لڑوں گا۔‘‘[سابقہ حوالہ جات] آپ ندامت کے ساتھ لشکروں کے بیچ میں سے نکلے اور وادی سباع میں مظلوم قتل ہوئے۔ آپ کو عمرو بن جرموز نے قتل کیا۔ فریقین کے ہاں ثابت ہے کہ وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار لے کر آیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے اسے اجازت نہیں دی۔ پھر آپ سے کہا گیا: وہ زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: کیا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکے بیٹے کو قتل کرنے پر فخر کیا جا رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا:’’ صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی بشارت دو۔‘‘[2] حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب عمر بن طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کی موت کے بعد آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے کو خوش آمدید۔ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ﴾ [الحجر: ۴۷] ’’اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے، بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘[3] یہ آیت کریمہ اور اس طرح کی دیگر نصوص دلالت کرتی ہیں کہ یہ دونوں حضرات اس دنیا سے پاکیزہ اور سلیم دل کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔
Flag Counter