Maktaba Wahhabi

145 - 406
’’کیا مؤمنین کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کیلئے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ﴾ [التوبۃ: ۳۸] ’’اے مؤمنو! تمھیں کیا ہواکہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین کی طرف بوجھل ہوجاتے ہو ؟ ‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ [الممتحنۃ:۱] ’’اے مؤمنو! میرے دشمنوں کواور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔‘‘ یہ آیات مبارکہ اور وہ آیات جو ان کے ہم معنی ہیں ، ان سب میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن والی کوئی بات نہیں ۔ بلکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے چند افراد پر عتاب کیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہ عتاب کسی ایک فرد واحد پر ہوتا تھا۔ جیسا کہ اس آخری آیت میں ہے۔ یہ آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس کو تمام صحابہ کے لیے عام کہنا بہت بڑی غلطی ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان صحابہ کو ایمان کے وصف سے مخاطب کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے تزکیہ اور ثنائے خیر کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات اور ان جیسی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل ایمان کے لیے عتاب کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی عتاب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی ایک آیات میں کیا ہے۔ جیسا کہ اس سورت میں ہے: ﴿ عَبَسَ وَتَوَلَّى () أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى﴾ [عبس: ۱۔۲] ’’تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔ کہ اس کے پاس اندھا آیا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ جب انہیں دیکھتے تو فرماتے اور مرحبا ایسے انسان جس کے بارے میں میرے رب نے مجھ پر عتاب کیا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter