Maktaba Wahhabi

137 - 406
تھا، تو پھر بھی ایام مرض میں آپ کو امامت کروانے کا حکم دینا، جبکہ دوسری طرف آپ نے لشکر اسامہ کو روانہ ہونے کا حکم دے دیا تھا تو بعد والے حکم سے آپ سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت منسوخ ہو گئی۔ پھر جب حضرت اسامہ کو آپ پر امیر بنایا ہی نہیں گیا تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔‘‘[1] یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ معارض عناصر میں سے نمایاں شخصیت تھے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ دوسرا آدمی لایا جائے۔ ٭حقیقت میں وہاں پر معارضہ کی کوئی بات ہی نہیں تھی کہ کوئی اس کا نمایاں یا غیر نمایاں عنصر ہوتا۔ اس میں اصل اعتبار روایت کی صحت نقل کا ہے۔ جب کہ اس بابت کوئی ایک بھی صحیح روایت موجود ہی نہیں اور یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو معزول کیا جائے تو یہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے نہیں تھی، بلکہ بعض دوسرے صحابہ بھی اس رائے میں شریک تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو بہت سارے عرب قبائل مرتد ہو گئے تھے اور دشمنان ہر طرف سے مسلمانوں کے خلاف کمین گاہیں بنا کر بیٹھ گئے تھے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں اکثر بڑے بڑے اور بہترین صحابہ موجود تھے۔ تو بعض کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اندیشہ محسوس کر رہے تھے کہ جب یہ لشکر نکلے گا تو کہیں دشمنان مدینہ کا گھیراؤ نہ کر لیں ۔ یہاں پر خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین رضی اللہ عنہم خواتین اور بچے موجود تھے۔ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ لشکر اسامہ کی روانگی کو اس وقت کے لیے موخر کیا جائے، یہاں تک کہ حالات سازگار ہو جائیں اور مرتدین کے ساتھ جنگوں سے فراغت مل جائے۔ جب آپ نے کسی کی بات نہ مانی تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ حضرت اسامہ کی جگہ کسی بڑے آدمی کو لشکر کا امیر بنایا جائے جو کہ جنگی مہارت رکھتا ہو، تاکہ جن سخت حلاات سے گزر ہو رہا ہے اس میں لشکر کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔[2] ان تمام احوال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لشکر اسامہ کی بابت اپنے اپنے اجتہاد سے گفتگو کر رہے تھے۔ بعض کا خیال تھا یہ لشکر روانہ ہونا چاہیے۔ بعض کی رائے اس کے خلاف تھی۔ بعض حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو معزول کروانا چاہتے تھے، بعض اس رائے کے خلاف تھے۔ ان سب کا منشا اور چاہت خیر و بھلائی تھی۔ سب میں اللہ کے دین اور مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کا عنصر متحرک تھا۔ یہ تمام حضرات ان لوگوں کی باطل تہمتوں سے بہت دور ہیں ۔
Flag Counter