Maktaba Wahhabi

132 - 406
اجتہاد کرنے والے کا عذر ہر حال میں مقبول ہوتا ہے۔ بلکہ اسے اس پر اجر ملتا ہے۔ حدیث نبوی میں ہے: ’’جب حاکم فیصلہ کرتا ہے اور درست اجتہاد کرتا ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور جب فیصلہ میں اجتہاد کرتا ہے اور خطا کر جاتا ہے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘[1] پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کے بارے میں کیسے کوئی بات کہی جا سکتی ہے، جبکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اجتہاد کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گنہگار نہیں کہا اور نہ ہی مذمت کی، بلکہ آپ کی موافقت کرتے ہوئے، تحریر لکھوانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ یہ کہنا درست ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا۔ اس لیے کہ آپ جان چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب آپ کی بات نہیں مانی جائے گی۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ رسالت کا حکم ہے خواہ لوگ آپ کی بات مانیں یا نہ مانیں ۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ﴾ [الشورٰی: ۴۸] ’’پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا، آپ کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے۔‘‘ اور ارشاد ربانی ہے: ﴿ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ [النحل: ۸۲] ’’پھر اگر وہ پھر جائیں تو تیرے ذمے تو صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے۔‘‘ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تحریر کے لکھنے کا حکم دئیے گئے ہوتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی صحابہ کے نہ ماننے کی وجہ سے حکم عدولی نہ کرتے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی مرحلہ میں لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے دعوت ترک نہیں کی تھی، حالانکہ اس وقت قوم سے مقابلہ بہت سخت تھا اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سخت اذیت بھی دیا کرتے تھے۔ آپ نے ہر حال میں تبلیغ رسالت کا فریضہ ادا کیا اور کوئی تکلیف یا پریشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ حتیٰ کہ ہلاک ہونے والے واضح دلائل کی موجودگی میں ہلاک ہوئے اور زندہ رہنے والے دلیل و برہان کی روشنی میں حیات درخشاں پا گئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ یہ تحریر لکھوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب نہیں تھا، وگرنہ آپ کبھی بھی اسے ترک نہ کرتے۔‘‘[2]
Flag Counter