Maktaba Wahhabi

131 - 406
لوگوں پر رد ہے جو اس مسئلہ میں نزاع کا شکار تھے نہ کہ حکم نبی پر۔ یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ تمہارے پاس کتاب اللہ موجود ہے۔‘‘ اس لیے کہ اس میں مخاطبین کی ایک جماعت شامل ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف رکھتے تھے۔ تیسری بات:.... حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اس وقت عہدنامہ تحریر نہ کرنا زیادہ بہتر اور اولی ہے۔ اس لیے کہ آپ کے نزدیک یہ بات طے شدہ تھی کہ یہ حکم نبوت وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ یہ ایک راجح شرعی مصلحت کی وجہ سے تھا، علماء کے اس کی توجیہ میں کئی اقوال ہیں : ۱۔پہلا قول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کی شفقت و محبت کہ اس تحریر کے لکھوانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔ اس کی شہادت اس جملہ سے ملتی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درد کا غلبہ ہو گیا ہے، تو آپ کو یہ بات ناگوار گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے تکلف میں ڈالا جائے جو آپ پر گراں اور پرمشقت ہو۔‘‘[1] اور آپ کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی گردش کر رہا تھا کہ: ﴿ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ ﴾ [الانعام: ۳۸] ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘ اور یہ فرمان الٰہی کہ: ﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ﴾ [النحل: ۸۹] ’’اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے۔‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کو ڈر اور اندیشہ لگ رہا تھا کہ کہیں منافقین باتیں بناتے نہ پھریں اور مریض دل والے بھی یہ بات نہ کہیں کہ نہ جانے خلوت اور تنہائی میں کیا نوشتہ تحریر کروایا اور پھر اس بارے میں طرح طرح کی باتیں بناتے نہ پھریں ۔‘‘[2] یہ بات بھی بعید نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تمام امور ملاحظہ کر لیے ہوں ۔ یا پھر آپ کے اجتہاد کی دیگر وجوہات ہوں جن کی اطلاع علماء کو نہیں ہو سکی۔ جیسا کہ اس سے قبل یہ وجوہ اختلاف رکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مخفی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک کتابت پر آپ کی موافقت فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام اس مسئلہ کو آپ کی فقہ اور دقت نظر کے مسائل میں سے شمار کرتے ہیں ۔ چوتھی وجہ:.... اس تحریر لکھوانے کے مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے موقف میں مجتہد تھے اور دین میں
Flag Counter