Maktaba Wahhabi

129 - 406
بات کہے کہ میں ان سے زیادہ حق دار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر کے علاوہ سب کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘[1] یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا ہو کہ آپ ہذیان بول رہے ہیں ۔ یہ بات حاضرین میں سے کسی ایک نے کہی ہے۔ صحیحین میں وارد روایات میں کسی ایک کا بھی تعین نہیں ہے۔ بلکہ وہاں پر ثابت یہ کہنا ہے کہ ’’قالوا: ما شانہ، أہجر۔‘‘ یوں یہ الفاظ جمع کے صیغہ کے ساتھ ہیں مفرد کے ساتھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے انکار کیا ہے کہ یہ الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مجھے یہ بات ظاہر معلوم ہوتی ہے کہ یہ الفاظ کہنے والا کوئی نیا مسلمان تھا اور یہ بات طبعی طور پر معلوم تھی کہ تکلیف کی شدت سے ایسا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے آپ بھی اپنی مراد کی بات تحریر نہ کروا سکے۔‘‘ [2] اور پھر اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا معروف صحابہ میں سے کسی ایک نے یہ الفاظ کہے ہیں تو ان میں طعن والی کوئی بات نہیں ۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں : پہلی وجہ:.... جو صحیح اور ثابت امر ہے وہ یہ کہ الفاظ سوالیہ انداز میں وارد ہوئے ہیں ’’أہجر‘‘ کے لفظ ہیں ۔ یہ ان روایات کے خلاف ہیں جن میں ’’ہجر‘‘ یا ’’یہجر‘‘ کے الفاظ ہیں جو کہ تنقید نگاروں نے اپنا کل اثاثہ سمجھ کر پکڑے ہوئے ہیں ۔ یہ الفاظ محقق محدثین کے ہاں مرجوح ہیں ۔‘‘[3] اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ سوالیہ الفاظ اس شخص پر انکار ہیں جو کہتا تھا کہ نہ لکھو۔‘‘[4] دوسری وجہ:.... بطور فرض اگر بغیر سوال کے ’’ہجر‘‘ کے الفاظ والی روایت صحیح بھی ثابت ہو جائے، تو اس میں بھی طعنہ والی کوئی بات نہیں ۔ اس لیے کہ لغت میں ہجر دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پہلا معنی وہ ہے جس کے انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ پیش آنے میں کوئی نزاع اور اختلاف نہیں اور یہ بیماری کے غلبہ، آواز میں کمزوری، خشکی کی زیادتی اور گرمی کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ جب کہ دوسری قسم غیر منتظم کلام کا جاری ہونا،یامقصود کے خلاف زبان پر کسی بات کا آنا، یہ سب کچھ اکثر طور پر بہت زیادہ گرمی یا شدت تکلیف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس قسم کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ عارضہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ پیش آ سکتا ہے
Flag Counter