Maktaba Wahhabi

128 - 406
تقدیم پر یک زبان ہیں ۔ جب کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امامت کے مستحق تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح جلی اور معروف نصوص کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ثابت ہے۔ تو پھر اس صورت میں کسی تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی۔‘‘[1] اگر (زندگی کے اس آخری مرحلہ میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تحریر سے مراد و مطلوب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نصوص تھیں ، تو اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس سے قبل کوئی نص نہ تھی۔ کیونکہ دو مرتبہ ایک ہی مسئلہ میں نصوص کا ورود کوئی معنی نہیں رکھتا اور مسلمانوں کے ہاں یہ ثابت ہے کہ جناب رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ نے کوئی وصیت تحریر نہیں فرمائی تھی۔ اس سے وصیت کا دعوی سرے سے باطل ٹھہرا۔ جب یہ اصول طے پا گیا تو یہ جان لینا چاہیے کہ علمائے کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کتاب (تحریر) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کیا تھی؟ بعض علماء کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض احکام کے متعلق نصوص تحریر کروانا چاہتے تھے، تاکہ ان میں اختلاف ختم ہو جائے۔[2] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تحریر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ایسا عہد نامہ تھا جس کی طرف فتنوں کے اوقات میں رجوع کیا جائے۔[3] یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ ملکی نظام کی تدبیر کی کیفیت تحریر کروانا چاہتے تھے، یعنی مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے اور وفود کو انعام و اکرام سے نوازا جائے جیسا کہ آپ خود کیا کرتے تھے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو تیار کیا جائے۔[4] اکثر محقق علماء کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حکم لکھوانا چاہتے تھے، پھر آپ نے تقدیر الٰہی پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔[5] یہ بات کہنے والے علماء نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے استدلال کیا ہے، آپ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلا لاؤ تاکہ میں ان کے حق میں ایک نوشتہ تحریر کر دوں ۔ مجھے اندیشہ لگ رہا ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرنے لگ جائے، یا کوئی کہنے والا یہ
Flag Counter