Maktaba Wahhabi

74 - 421
حیثیت عرفی کا ازالہ ہوتا ہے، لیکن اگر متضرر میں وہ صفات پہلے سے موجود ہوں تو اس نے مجرم سے بھی پہلے خود اپنی عزت و آبرو کو بٹہ لگایا اور اپنے آپ کو ذلیل و خوار کیا، لہٰذا ایسی بات کہنے والے پر کوئی مواخذہ نہیں۔ (الجوہرۃ النیرۃ: 2/253) مختصر یہ کہ ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص بھی کسی دوسرے کو سب و شتم کرے خواہ اس کی نوعت جیسی بھی ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے معصیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اور اس کا یہ فعل مخاطب کے لیے باعث اذیت ہوا۔ یہاں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ قائل نے جس فعل کی نسبت دوسرے کی طرف کی اس کو موجب عار اور توہین آمیز ہونے اور اس کے اذیت ناک ہونے کا فیصلہ عرف اور عادت کے مطابق کیا جائے گا یعنی اگر مجرم نے جس فعل کی نسبت مخاطب کی طرف کی وہ عرف اور عادت میں موجب ننگ و عار نہیں ہے یا اس سے مخاطب کو اذیت نہیں پہنچی تو اس صورت میں مجرم کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ اس وقت اس کا یہ فعل سرے سے جرم ہی نہیں رہتا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ مختلف زبانوں، زمانوں اور مختلف علاقوں میں عرف اور عادت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ حدیث میں بھی سب و شتم کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سباب المؤمن فسوق و قتاله كفر) (بخاری، رقم: 4044، مسلم: 64) "مومن کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا کفر۔" ایک مسلمان غیظ و غضب کی حالت میں بھی اپنے آپ پر کنٹرول کرتا ہے اور زبان کو اپنے قابو میں رکھتا ہے کہ کہیں کوئی کلمہ زبان سے نہ نکل جائے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو۔ وہ ہر قسم کی گالی گلوچ، سب و شتم، ناپسندیدہ اور فحش کلمات سے اجتناب کرتا ہے اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا پورے اخلاص اور صدق دل کے ساتھ التزام کرتا ہے۔ اس میں دوسروں کو لعن طعن کرنا بھی شامل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (ليس المومن بالطعان، ولا اللعان، ولا الفاحش ولا البذي) (الادب المفرد: 312)
Flag Counter