Maktaba Wahhabi

49 - 421
کی اس اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرے۔اور جو لوگ اس وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں کہ ان کو کھلائیں گے کہاں سے کیونکہ ہمارے وسائل زندگی کم ہیں، انہیں یہ کہہ کر قتل اولاد سے روکا گیا: (وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا ﴿٣١﴾) (الاسراء: 31) "اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بےشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔" اولاد کو اس لیے قتل کرنا کہ ان کو کھلانے کے لیے رزق میسر نہیں ہو گا تو یہ اللہ تعالیٰ کی رزاقی کے ساتھ بدگمانی ہے اور اگر بیٹیوں سے عار کی وجہ سے ہو تو پھر نظام عالم فاسد ہو جائے گا۔ اور پہلی صورت میں اللہ کی تعظیم کے خلاف ہے اور دوسری صورت مخلوق پر شفقت کے خلاف ہے۔ ماں باپ کا اولاد کے ساتھ جو تعلق ہے وہ جزئیت کا ہے کیونکہ اولاد والدین کا جز ہوئی ہے اور یہ ایک دوسرے سے محبت کا قوی سبب ہے، اور یہ فطری اور طبعی محبت ہے اور اولاد کو قتل کرنا اس طبعی محبت کے خلاف ہے۔ اسلام نے اسلامی زندگی کا یہاں تک تحفظ کیا کہ اسقاط حمل کو بغیر کسی عذر کے حرام قرار دیا۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں اس کو ناجائز قرار دیا گیا اور امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کو مطلق حرام قرار دیا۔ (هي محرم مطلقاً) بلکہ خاندانی منصوبہ بندی جس کی آج پاکستان میں اس قدر تشہیر ہو رہی ہے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے۔ یہ بھی ایک شیطانی عمل اور اسلام کی رو سے ناجائز ہے، اور اگر اس کی ٹوہ لگائی جائے تو یہ ایک یہودی سازش ہے جس کو عیسائی اور مسلمان حکومتیں عملی جامہ پہنا کر یہودیوں کی مدد کر رہی ہیں۔ شیطان نے قتل اولاد کا ایک طریقہ یہ نکالا کہ "بچے دو ہی اچھے" کا نعرہ لگا دو۔ اور لوگوں کے دلوں میں یہ خوف ڈال دو کہ اگر بچے زیادہ ہو گئے تو اس مہنگائی کے دور میں ان کی پرورش مشکل ہو گی، چنانچہ وہ تنگی رزق کے خوف سے اپنے بچوں کو دنیا میں آنے سے قبل ہی قتل کر دیتے ہیں۔ حکومتی میڈیا اور نشرواشاعت کے ذرائع سے ضبط تولید اور خاندانی منصوبہ بندی کا بڑے زور شور سے پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ "کم بچے خوش حال
Flag Counter