Maktaba Wahhabi

43 - 421
(پہلے عرب لوگ فصل خریف سے سال کا حساب کیا کرتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے سن ہجری قائم کیا۔) (ترمذی، رقم: 1403) یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک مسلمان ذمی کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اور ابن ابی لیلیٰ کا موقف یہ ہے کہ مسلمان کو ذمی کے بدلہ میں بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو قتل کر دے، پھر قاتل مسلمان ہو جائے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال فقہاء فرماتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبلہ میں سے ایک شخص کو ایک ذمہ کے بدلہ میں قتل کیا اور فرمایا کہ یہ بات سب سے بڑھ کر میرے لائق ہے کہ میں عہد کا پابند رہوں۔ یہ روایت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ "مسلم کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔" اس میں اگرچہ کافر کا لفظ عام ہے مگر یہ حدیث اسے کافر حربی کے معنی میں مخصوص کر دیتی ہے اور ذمی اس کے حکم سے خارج ہو جاتا ہے۔ نیز وہ اس سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کا مال چوری کر لے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، لہٰذا قیاس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جب ذمی کا مال، مال مسلم کے برابر ہے تو اس کی جان بھی ایک مسلمان کی جان کے برابر ہے۔ پھر قصاص کی نصوص میں بھی عموم ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ) (بقرہ: 178) "یعنی مقتولوں کے بارے میں قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے۔" اسی طرح سورۃ المائدہ میں فرمایا: (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۔۔۔ الآية) (المائدہ: 45) "اس بارے میں ہم نے ان پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان۔" ان آیات میں قاتل اور مقتول کے درمیان اور جان اور جان کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا، لہٰذا تخصیص اور تقید کے دعوے دار کو دلیل اور ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دعویٰ کی دلیل میں بہت سی احادیث بھی ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے
Flag Counter