Maktaba Wahhabi

381 - 421
ناخوش گواریوں کا سدباب ہو کہ یہ پڑوس جہنم نہ بنے بلکہ جنت کا نمونہ ہو۔ اس بارہ میں امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کے حقوق وآداب میں سے یہ ہے کہ اس کو ابتداء سلام کرے اور اس سے زیادہ دیر گفتگو نہ کرے۔ان کے خانگی معاملات کی تفتیش نہ کرے اور نہ ہی ان کی ٹوہ لگائے۔ بیماری میں اس کی عیادت کرے۔مصیبت میں اظہار ہمدردی اور موت میں اس کی تعزیت کرے اور تجہیز وتکفین میں شریک ہو۔خوشی کے موقع پر اس کو مبارکباد دے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہو، اس کے عیوب معلوم کرنے کی کوشش نہ کرے۔اس کے گھر میں نظر نہ ڈالے اور اگر اس کے گھر کا اندرونی منظر دکھائی دیتا ہو تو اس کو چھپانے کی کوشش کرے۔اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کا خیال رکھے اور دین اور دنیا کی بھلائی سے جو باتیں اس کے بچے نہ جانتے ہوں وہ ان کو بتلائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر پڑوسی تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو،اگر قرض مانگے تو قرض دو۔مرض میں اس کی عیادت کرو،مرجائے تو جنازہ میں شریک ہو،اس کی اجازت کے بغیر اس کے مکان کے سامنے اتنا اونچا مکان نہ بناؤ جس سے اس کی ہوا رک جائے یا اس کی بے پردگی ہو، اس کو ایذا مت دو۔اگر پھل خریدو تو اس کو ہدیہ دو،اور اگر نہ دےسکو تو اپنے گھر میں چپکے سے پھل لے جاؤ تاکہ اس کے بچوں کو پتہ نہ چلے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں۔اول وہ جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی،اس کا حق سب سے زیادہ ہے،دوسری قسم عام مسلمان پڑوسی کی ہے۔اس کا حق دوسرے درجہ پر ہے اور تیسراپڑوسی غیر مسلم شخص ہے،اور جو احکام مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں ان تمام احکام،حقوق اور آداب کا غیر مسلم پڑوسی بھی مستحق ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: (وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾) (النساء: 36)
Flag Counter