Maktaba Wahhabi

349 - 421
پرورش کی سب سے زیادہ مستحق ہے۔ ایک مرتبہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:"یا رسول اللہ! (ان ابني هذا كان بطني له وعاء: ثديّ له سقاء وحجري له حواء) اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ میرے اس بچے کو مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (انت احق به مالم تنكحي) "جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی تو ان کی زیادہ حق دار ہے۔" (منتقی الاخباربشرح نیل الاطار:6/349،زادالمعاد،ابن قیم:4/23،الفتح الربانی:17/64،ابوداؤد:1/529،رقم:2276) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بچے کا جھگڑا آیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"یہ ماں کے ساتھ ہے جب تک بولنے نہ لگے۔اس کے بعد اس کی نانی کا اختیار ہے۔" (مصنف عبدالرزاق:7/156، المحلی ابن حزم:10/328) اور نانی بچہ کے باپ سے زیادہ اس کی حضانت کی حق دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں ایک انصاری عورت جمیلہ تھی جس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا عاصم پیدا ہوا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو طلاق دے دی۔بعد ازاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک روز ادھر سے گزر ہوا،دیکھا کہ ان کا بیٹا عاصم مسجد کے صحن میں کھیل رہا ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بازو سے پکڑا اور اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا۔بچہ کی نانی آئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جھگڑنے لگی یہاں تک کہ دونوں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا:" یہ میرا بیٹا ہے۔"اس عورت نے کہا:"یہ میرا بیٹا ہے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"بچہ اس کی نانی کے پاس رہنے دو۔"چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ خاموشی سے قبول کرلیا۔ (موطا امام مالک:2/767،سنن کبریٰ بیہقی:8/5،مصنف عبدالرزاق:7/154،زاد المعاد:4/240)
Flag Counter