Maktaba Wahhabi

316 - 421
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "یتیم لڑکی سے بھی اجازت لی جائے، اگر وہ خاموش رہے تو یہ اس کی اجازت ہے اگر وہ انکار کر دے تو زبردستی اس کا نکاح نہیں پڑھایا جا سکتا۔ (ترمذی، رقم: 1109، ابن حبان: 9/399) شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ نکاح کو فسخ کر سکتی ہے جو اس کے ولی نے اس کی پسند کے خلاف کیا ہو کیوں کہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہ کی اس کے باپ نے شادی کی وہ اسے ناپسند کرتی تھی اور وہ ایک شوہر دیدہ عورت تھی۔ (یعنی ثیبہ تھی) چنانچہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نکاح کو فسخ فرما دیا۔ (بخاری، رقم: 4845) اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کنواری عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی ہے لیکن وہ اسے ناپسند کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکاح قائم رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا۔ (اخرجہ ابوداؤد، رقم: 2096، ابن ماجہ، رقم: 1875، مسند احمد: 1/273، رقم: 2475) زمانہ نبوی میں ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر اس کے چچا زاد سے کر دیا۔ اس نے اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرے والد نے میری شادی میرے چچا زاد سے کر دی ہے اور وہ مجھے پسند نہیں ہے، اس عورت کی رشتہ سے ناگواری سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ عورت کے ہاتھ میں دے دیا کہ تم کو اس نکاح کے رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ اس نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس نکاح کی اجازت اپنے باپ کو دے چکی ہوں (لہٰذا اس نکاح کو رکھتی ہوں) (ولكن اردت ان اعلم الناس انه ليس للآباء من الامر شئي) "لیکن میں نے لوگوں کو یہ بتا دینا چاہا کہ باپ دادا کے ہاتھ نکاح کے معاملہ میں کچھ نہیں ہے۔" (اخرجہ ابن ماجہ، رقم: 1884، مسند احمد، رقم: 25201، رقم: 25201)
Flag Counter